ایک خاتون صحافی کا سیلاب کے نام کھلا خط

سیلاب کے نام ایک خاتون صحافی کا دل دہلا دینے والا کھلا خط، جس میں انہوں نے متاثرین کی بےبسی اور اپنے دکھ کو بیان کیا ہے۔

مظفر گڑھ میں اپنے خاندان کے ہمراہ سیلاب زدہ علاقے سے نقل مکانی کرنے والا ایک شخص امدادی خوراک وصول کر رہا ہے (اے ایف پی)

تمہارا ذکر ہی میرے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ تم سامنے آؤ تو موت یا پھر دل گرفتگی لازمی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ظاہر ہے کسی بھی طاقت ور کے سامنے کمزور اور بے بس کیا ہی کر سکتا ہے۔

میں نے 2010 میں تمہیں سندھ میں داخل ہوتے دیکھا۔ مجھے وہ منظر آج بھی نہیں بھولتا۔

جب کئی روز کے بھوکے لوگ ایک گودام پر جھپٹ پڑے تھے، جہاں آنے کے لیے کسی بھرے پیٹ وزیر کا انتظار تھا کہ وہ آ کر تقریر کرے اور پھر بھیک میں متاثرین کو آٹے کی بوریاں دے۔

یہ وہ وقت تھا جب کوئی ایسا گاؤں نہ تھا جہاں تم نے اپنی طاقت ظاہر نہ کی ہو۔ لوگوں کی برسوں کی محنت سیکنڈوں میں ڈھیر نہ کی ہو۔ 

جب سی ون تھرٹی سیلاب زدہ علاقوں میں خوراک اور دیگر سامان پھینکتے اور لوگ ان پر جھپٹتے تب تمہیں اپنا آپ کتنا سرشار محسوس ہوتا ہو گا کہ دیکھو میں ان لوگوں کو کہاں لے آیا ہوں۔

پھر میں نے 2022 میں تمہیں اپنے سامنے پایا۔ اس بار میں پوری تیاری سے تمہارا سامنا کرنے گئی۔ 

جہاں جہاں سے گزری، تم نظر آئے۔ میں منھ پھیر لیتی کہ یہاں میں تمہیں دیکھنے نہیں تمہارے ستائے لوگوں سے ان کی کہانیاں سننے آئی ہوں۔

میں نے ایک بستی میں لوگوں کو افراتفری میں بھاگتے دیکھا۔ وہاں چیخ پکار، ایک کہرام مچا تھا تم وہاں بس پہنچنے ہی والے تھے کسی بھی لمحے بند ٹوٹ جانا تھا۔

میں نے ایک شخص کو اس افراتفری سے بےخبر، تمہارے غیظ و غضب سے بےفکر بند پر وزنی پتھر رکھتے دیکھا۔ وہ اپنے طور پر کوشش کر رہا تھا کہ تمہیں روک سکے۔ 

مجھے تھوڑا حوصلہ ملا۔ اتنی ہمت ملی کہ میں کئی فٹ پانی میں اتری۔ 

تب مجھے تم سے خوف بھی آ رہا تھا اور نفرت بھی محسوس ہو رہی تھی کہ تمہاری وجہ سے وہ مائیں جنھوں نے کچھ گھنٹوں پہلے بچہ جنا تھا وہ انہیں لیے اپنی تکلیف بھولے محفوظ مقامات کے لیے ماری ماری گھوم رہی تھیں۔

کچھ ایسی مائیں بھی تھیں جن کی کوکھ میں بچہ تھا اور وہ سنبھل سنبھل کر موت کے منہ سے گزرتی ہوئی ڈولتی کشتیوں میں سوار ہو رہی تھیں کیونکہ انھیں خود سے زیادہ اس بچے کی فکر تھی جسے دنیا میں آنے کے لیے کچھ دن بچے تھے۔

تمہیں معلوم ہے کہ کئی ماؤں نے سیلاب اور بارش میں بچے پیدا کیے۔ اس وقت نہ تو کوئی ہسپتال بچا تھا نہ ہی کوئی ڈاکٹر ان کے پاس تھی۔ 

انھیں تو صرف اللہ کا آسرا تھا۔ مجھے ایک ایسی ماں بھی ملی جس کا لعل اس کے میلے دوپٹے میں چھپا ہوا تھا اور اس نے مجھ سے پانی کی بوتل یہ کہہ کر مانگی کہ اس کا دو ماہ کا بچہ 24 گھنٹے سے پیاسا ہے۔

وہ بچہ ایک سانس میں آدھی بوتل خالی کر گیا تھا۔ تب میں نے تمہیں بڑی بےبسی سے دیکھا، لیکن تمہارا تکبر مجھے اندر ہی اندر کھا گیا۔

تمہاری وجہ سے کئی مرد جو اپنے گھر کے سربراہ اور خاندان کا فخر تھے، آسمان کی طرف نگاہیں کیے خاموش فریاد کر رہے تھے ان کے گھر کی عزتیں مائیں بہنیں اور بیٹیاں چھوٹے سے خیمے میں ایک چارپائی پر سکڑ کر بیٹھی ہوئی تھیں جنہیں بیت الخلا بھی نصیب نہ تھا اور ان کا مرد باہر بارش میں بھیگ رہا تھا۔

تم نے نہیں، میں نے ان کے آنسو دیکھے تھے۔ تم تو اتنے ظالم ہو کہ تم نے کسی کا باپ چھینا تو کسی کی اولاد، کسی کی چھت چھینی تو کسی کا متاع حیات۔

لیکن نہ تو تمہارا غرور ختم ہو رہا تھا، نہ ہی یہ سب لے کر من بھر رہا تھا تمہیں تو بس اور چاہیے تھا۔

اب تم پھر سے لوٹ آئے ہو اور مزید طاقت ور ہو کر آئے ہو، لیکن اگر میں سچ کہوں تو اب مجھ میں پہلے جیسی ہمت نہیں۔

اب پانی میں اترنا تو دور تمہیں دیکھتے ہی مجھے رونا آ رہا ہے۔ ہاں سچ میں، میں رو رہی ہوں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب دیکھوں کہ ایک کسان جو اپنی زمینیں گھر بار چھوڑ کر جانے لگے اور بچوں کی طرح پالنے والے جانوروں کی رسی کھول دے اور کہے، ’جاؤ، اللہ کے حوالے!‘

مجھے رونا آتا ہے، جب رضاکاروں کی کشتی سیلاب سے بھرے پانی سے گزر کر کسی ٹیلے پر بیٹھے بھوکے کتوں کو روٹی ڈالے اور ساتھ لے جانے کی کوشش کرے لیکن وہ بھوکی کتیا اس لیے نہ جائے کہ اس کے بچے کہیں پھنسے ہیں۔

کئی کشتیوں کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اپنے خالی برتن اٹھائے دوڑتے بوڑھےاور بچے مجھے ہلا دیتے ہیں۔ 

یہ تو وہ ہاتھ تھے جنہوں نے ہمارے کھانے کا بندوبست کیا، ان کے کھیتوں سے پورا ملک پیٹ بھرتا ہے، آج یہ خالی برتن اٹھائے مدد لینے آ رہے ہیں۔

مجھے ایک ہی رات میں عرش سے فرش پر پہنچ جانے والے خاندانوں کی بے بسی پر رونا آتا ہے۔

مجھے گھر کے ہوتے ہوئے بے سروسامانی کی زندگی گزارنے والوں کو دیکھ کر رونا آتا ہے، جب کوئی بوڑھی بیوہ مائی گود میں بکری کا بچہ اٹھائے سیلاب سے گزر رہی ہو تو مجھے رونا آتا ہے۔

ایسے باپ دیکھ کر جو ساری زندگی کی جمع پونجی ضائع ہوتے دیکھ کر بھی صرف خاندان کی وجہ سے کھڑے ہیں۔ ان کو دیکھ کر رونا آتا ہے۔ 

تمہارا ظلم و زیادتی رکتے نظر نہیں آتے۔ مجھے معلوم ہے کہ تمہارا من نہیں بھر رہا تم نے اس شدت سے لوٹ کر بتا دیا ہے کہ تم ہمیشہ سے طاقت ور تھے اور رہو گے۔ جو تمہارے راستے میں آیا اسے روند کر گزر جاؤ گے۔

تم نے مجھے توڑ دیا ہے، تم نے پنجاب نہیں ہم سب کو نگل لیا ہے۔ ہماری تمام دعائیں، منت سماجتیں تمہارے سامنے بے اثر ہیں۔ 

تمہیں کوئی بھی تو نہیں روک پا رہا کیونکہ تمہارے سامنے بےبس مجبور لاچار لوگ ننگے پاؤں خالی ہاتھ کھڑے ہیں، جنہیں تم صرف یہ بتا رہے ہو کہ میں آتا رہوں گا، میرا ڈر دل میں رکھنا، میں جب چاہوں تم لوگوں کی زندگیوں کو ہلا سکتا ہوں، میرا خوف جانے نہ دینا۔

فقط

ایک بے بس مجبور پاکستانی

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات