ایک سابقہ کلاس روم، جو اب عارضی امدادی کیمپ میں تبدیل ہو چکا ہے، میں حاملہ خواتین پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے پناہ لیے بیٹھی ہیں۔ ان کے جسم درد میں مبتلا، آنکھیں تھکن اور خاموش مایوسی سے بوجھل ہیں۔
لاہور کے نواحی علاقے چونگ میں واقع بستی میں، خواتین اپنے گھروں کو نگل جانے والے پانی کے اترنے کا انتظار کر رہی ہیں، ان کے پاس سینیٹری پیڈز اور دورانِ حمل ضروری ادویات سمیت بنیادی طبی سہولیات کی شدید کمی ہے۔
19 سالہ شمائلہ ریاض، جو اپنے پہلے بچے کے ساتھ سات ماہ کی حاملہ ہیں، گذشتہ چار دنوں سے امدادی کیمپ میں موجود ہیں اور حمل کے درد برداشت کر رہی ہیں۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’میں اپنے بچے کے بارے میں سوچنا چاہتی تھی، لیکن اب تو مجھے اپنے ہی مستقبل کا یقین نہیں۔‘
گندے کپڑوں میں ملبوس، کئی دنوں سے نہانے سے محروم خواتین، اس گنجان سکول میں پناہ لیے بیٹھی ہیں جہاں دو ہزار سے زائد افراد مقیم ہیں، اور جس کے ارد گرد کیچڑ اور جمع شدہ بارش کا پانی ہے۔
19 سالہ فاطمہ، جو ایک سالہ بیٹی کی ماں اور چار ماہ کی حاملہ ہیں، کہتی ہیں: ’میرے جسم میں شدید درد ہے اور مجھے وہ دوائیں نہیں مل رہیں جو چاہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’میں اپنی مرضی سے کھاتی، سوتی، چلتی تھی — اب یہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے، یہاں ایسا ممکن نہیں۔‘ فاطمہ نے اے ایف پی سے گزارش کی کہ ان کا اصل نام استعمال نہ کیا جائے۔
گذشتہ ہفتے ہونے والی مون سون بارشوں نے پنجاب کی تین بڑی دریاؤں میں طغیانی پیدا کر دی، جو کہ پاکستان کی زرعی شہ رگ اور 25 کروڑ 50 لاکھ آبادی کا تقریباً نصف حصہ ہے۔
پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب کے مطابق، اتوار تک متاثرہ افراد کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کر گئی۔
تقریباً 7 لاکھ 50 ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا، جن میں 1 لاکھ 15 ہزار کو کشتیوں کے ذریعے نکالا گیا — جو صوبائی حکومت کے مطابق پنجاب کی تاریخ کی سب سے بڑی امدادی کارروائی ہے۔
سیلاب نے زیادہ تر دیہی علاقوں کو متاثر کیا، لیکن شدید بارشوں سے شہری علاقے، بشمول لاہور کے کئی حصے بھی زیرِ آب آ گئے۔
اگرچہ جنوبی ایشیا کی موسمی مون سون بارشیں زراعت کے لیے ضروری ہوتی ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلی نے انہیں بے قاعدہ اور مہلک بنا دیا ہے۔
جون سے اب تک شدید بارشوں سے ہونے والے لینڈ سلائیڈز اور سیلاب سے ملک بھر میں 850 سے زائد افراد جان سے گئے ہیں۔
تازہ ترین بارشوں میں اتوار کو صوبائی وزیر کے مطابق کم از کم 32 افراد جان سے گئے۔
انفیکشنز اور ذہنی صدمہ
پتلی لکڑیوں کے سہارے بنے خیموں میں مقیم سیلاب زدہ خواتین کو حیض کے دوران خون سے آلودہ کپڑوں کے باعث سینیٹری پیڈز اور صاف لباس حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
پاکستان میں حیض کے موضوع پر بات کرنا تاحال ممنوع سمجھا جاتا ہے، اور بہت سی خواتین کو اس حوالے سے گفتگو سے روکا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
35 سالہ علیمہ بی بی، جن کا بچہ کیچڑ سے آلودہ چادر پر سو رہا تھا، کہتی ہیں: ’ہم حیض کے دوران پیڈز کے لیے ترس رہے ہیں۔ اور اگر پیڈ مل بھی جائیں تو استعمال کے لیے مناسب بیت الخلا موجود نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہم قریبی گھروں میں جا کر بیت الخلا استعمال کرتے ہیں۔‘
جمِیلا، جو صرف ایک ہی نام استعمال کرتی ہیں، کہتی ہیں کہ وہ ایک گائے کے باڑے کے ساتھ بنا عارضی بیت الخلا استعمال کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’ہم ان گھروں میں مردوں کے باہر جانے کا انتظار کرتے ہیں، پھر جا کر پیڈ تبدیل کرتے ہیں۔‘
ریلیف کیمپ کے قریب موجود ایک میڈیکل ٹرک کے باہر ایک پریشان خاتون نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ اپنی آٹھ ماہ کی حاملہ بہو کو، جنہیں درد زہ شروع ہو چکا، کہاں لے جائیں۔
مقامی این جی او کے قائم کردہ میڈیکل کیمپ کے ڈاکٹروں کے مطابق، حاملہ خواتین متعدی بیماریوں کا بھی شکار ہو سکتی ہیں۔
27 سالہ ڈاکٹر فہد عباس نے کہا: ’میں روزانہ 200 سے 300 مریض دیکھتا ہوں جن میں مختلف انفیکشنز اور آلودہ پانی سے پھیلنے والی بیماریاں پائی جاتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’یہاں کئی مریض خاص طور پر خواتین اور بچے، اپنے گھروں کے نقصان کے بعد ذہنی صدمے سے گزر رہے ہیں۔‘
عالمی ادارہ صحت کے مطابق، پاکستان میں سیلاب کے بغیر بھی روزانہ 675 نوزائیدہ بچے اور 27 خواتین دورانِ پیدائش پیچیدگیوں کے باعث جان کی بازی ہار جاتی ہیں، حالانکہ ان اموات سے بچا جا سکتا ہے۔
ایک اور خاتون، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، کہتی ہیں کہ وہ دوائیں جو وہ پہلے ماہواری کے درد کے لیے استعمال کرتی تھیں، اب خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔
جمِیلا نے کہا: ’ہم موت سے تو بچ نکلے، لیکن یہ اذیت بھی کسی موت سے کم نہیں۔‘