پنجاب حکومت نے حالیہ پرتشدد مارچ کے بعد تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی عائد کرنے کے لیے وفاقی حکومت سے سفارش کا فیصلہ کیا ہے۔
ٹی ایل پی نے 10 اکتوبر کو ’لبیک یا اقصیٰ‘ کے نام سے لاہور تا اسلام آباد مارچ کا اعلان کیا تھا، جسے روکنے کی کوششوں پر ٹی ایل پی کارکنوں اور پولیس میں متعدد جھڑپیں ہوئیں۔ 13 اکتوبر کو پنجاب کے شہر مریدکے میں مارچ کو منتشر کر دیا گیا، جہاں پولیس کی بڑی تعداد میں نفری اور رینجرز نے مل کر مارچ کے شرکا کو جی ٹی روڈ خالی کرنے پر مجبور کر دیا۔
پولیس کے مطابق مارچ میں شامل افراد کو منتشر کرنے کی کارروائی کے دوران ایک ایس ایچ او جان سے گئے اور 80 سے زائد اہلکار زخمی ہوئے جبکہ ٹی ایل پی نے بھی اپنے کئی کارکنوں کی اموات، زخمی ہونے اور گرفتاریوں کا دعویٰ کیا۔
مرید کے واقعہ کا مقدمہ ٹی ایل پی رہنماؤں کے خلاف درج کیا گیا، تاہم اس جماعت کے سربراہ سعد حسین رضوی، ان کے چھوٹے بھائی انس حسین رضوی اور دیگر مرکزی قائدین کے بارے میں اس وقت تک کوئی اطلاع نہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔ نہ صرف ان کی جماعت لاعملی کا اظہار کر رہی ہے بلکہ پولیس بھی ان کی گرفتاری کی تردید کرتی ہے۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق مرید کے مارچ کے دوران اور بعد میں پنجاب کے مختلف تھانوں میں ٹی ایل پی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف اب تک 72 مقدمات درج کر کے 2700 سے زائد کارکنوں اور رہنماؤں کو گرفتار کیا جاچکا ہے جبکہ مزید گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
اس صورت حال میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت جمعرات کو ہونے والے ایک اہم اجلاس میں نام لیے بغیر ٹی ایل پی پر پابندی کی سفارش کا عندیہ دیا گیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب ہاؤس کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلاس میں ’ریاستی رِٹ اور قانون کی بالادستی قائم کرنے‘ کے لیے غیر معمولی اور تاریخی فیصلے کیے گئے ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا: ’پنجاب حکومت وفاقی حکومت کو انتہا پسند جماعت پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کرے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’پنجاب میں نفرت انگیزی، اشتعال انگیزی اور قانون شکنی میں ملوث افراد کو فوری گرفتار کیا جائے گا۔ پولیس افسران کی شہادت اور سرکاری املاک کی تباہی میں ملوث رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے۔‘
اسی طرح اعلامیے میں ’انتہا پسند جماعت کی قیادت کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے فورتھ شیڈول میں شامل‘ کیے جانے اور ’اس جماعت کی تمام جائیدادیں اور اثاثے محکمہ اوقاف کے حوالے کیے جانے‘ کا بھی کہا گیا ہے۔
پنجاب حکومت کے اعلامیے کے مطابق ’انتہا پسند جماعت کے پوسٹرز، بینرز اور اشتہارات پر مکمل پابندی ہو گی۔ نفرت پھیلانے والے انتہا پسند جماعت کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کیے جائیں گے، جماعت کے تمام بینک اکاؤنٹس منجمد کیے جائیں گے اور لاؤڈ سپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی پر سخت ترین کارروائی ہو گی۔‘
دوسری جانب پاکستان کی اہل سنت کی جماعتوں نے بھی بدھ کی شام ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ مریدکے میں پیش آنے والے واقعے کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کا کمیشن قائم کیا جائے اور جتنے کارکن اور رہنما گرفتار کیے گئے ہیں انہیں فوری رہا کیا جائے جبکہ مرید کے آپریشن کے دوران جان سے جانے والے کارکنوں کی لاشیں اور زخمیوں کو ورثا کے حوالے کیا جائے۔