پاکستان کی مذہبی اور سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کا ’لبیک اقصی مارچ‘ پیر کو صبح ’پر تشدد‘ آپریشن کے بعد مرید کے میں منتشر کر دیا گیا، لیکن اس جماعت کے سربراہ سعد حسین رضوی، ان کے چھوٹے بھائی انس حسین رضوی اور دیگر مرکزی قائدین اس وقت کہا ہیں کسی کو معلوم نہیں۔
ٹی ایل پی قائدین کا کنٹینر بھی نذر آتش ہوا مگر مارچ کی قیادت کرنے والے امیر ٹی ایل پی حافظ سعد حسین رضوی، ان کے چھوٹے بھائی انس رضوی سمیت متعدد قائدین کہاں گئے اس پر نہ صرف ان کی جماعت لاعملی کا اظہار کر رہی ہے بلکہ پولیس بھی ان کی گرفتاری کی تردید کرتی ہے۔
اس صورت حال میں افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں جن کی تصدیق منگل کی دوپہر تک نہیں ہو پائی۔
ٹی ایل پی کا 10 اکتوبر کو لاہور سے روانہ ہونے والا مارچ پیر 13 اکتوبر یعنی تین دن بعد پنجاب کے شہر مریدکے میں منتشر کر دیا گیا تھا، جہاں پولیس کی بڑی تعداد میں نفری اور رینجرز نے مل کر مارچ کے شرکا کو جی ٹی روڑ خالی کرنے پر مجبور کردیا۔
مذاکرات کی کوششیں جاری تھیں لیکن ٹی ایل پی کے نئے مطالبات سامنے آنے پر حکام نے آپریشن کا فیصلہ کیا۔
پولیس حکام کے مطابق اس آپریشن میں ایک ایس ایچ او جان سے گئے اور کل 48 اہلکار زخمی ہوئے۔
مرید کے واقعہ کا مقدمہ بھی ٹی ایل پی رہنماؤں کے خلاف درج کیا گیا۔
تحریک لبیک کی جانب سے اس آپریشن کے خلاف لاہور، کراچی سمیت کئی شہروں میں احتجاج ہوئے لیکن پولیس نے چند گھنٹوں میں ہی تمام راستے کھول کر مظاہرین کو منتشر کر دیا۔
ترجمان شیخوپورہ پولیس محمد یونس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مرید کے سمیت پورے ضلع میں پولیس کی نفری موجود ہے، پیٹرولنگ کی جارہی ہے اور بد امنی پھیلانے والوں کو گرفتار بھی کیا جارہا ہے۔
ان کے بقول ’جی ٹی روڑ پر ٹریفک بحال ہے لیکن سعد رضوی یا انس رضوی شیخوپورہ پولیس کی حراست میں نہیں ہیں۔ اس لیے ان کے حوالے سے علم نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ ہمارے ایس ایچ او کو مارنے اور اہلکاروں کو زخمی کرنے کے مقدمہ میں ان کی گرفتاری مطلوب ہے۔‘
ٹی ایل پی کے مرکزی ترجمان ریحان محسن خان سمیت کوئی بھی رہنما معلومات فراہم کرنے کو تیار نہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے متعدد بار رابطے کی کوشش کی اور میسجز دیے لیکن (خبر شائع ہونے تک) ان کی جانب سے سعد رضوی یا انس رضوی کے حوالے سے گرفتار یا آزاد ہونے کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لاہور میں پولیس نے ٹی ایل پی کے مرکز مسجد رحمت العالمین کو مکمل کنٹرول میں لے رکھا ہے۔ عام شہریوں کو مسجد میں جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ اس کے علاوہ ٹی ایل پی کارکنوں کا کہنا ہے ان کے گھروں پر پولیس چھاپے مار کر گرفتار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
جمعیت علما اسلام مولانا فضل الرحمن، جماعت اہلسنت سمیت تمام مذہبی جماعتوں کی جانب سے ٹی ایل پی کے خلاف آپریشن کی مذمت کی جا رہی ہے۔ مذہبی جماعتیں تحریک لبیک کے کارکنوں کے خلاف کارروائی کی بجائے مذاکرات کے ذریعے معاملہ حل کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمی بخاری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’ٹی ایل پی کے خلاف آپریشن بارے وہ مکمل تفصیل کے ساتھ ایک دو دن میں عوام کو آگاہ کریں گی لیکن ایک بات طے ہے کہ امن وامان خراب کرنے یا راستے روکنے کی جازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔‘
ٹی ایل پی کی جانب سے دعوی کیا جا رہا ہے کہ پورے مارچ کے دوران ان کے متعدد کارکن پولیس کی فائرنگ سے جان سے گئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوگئے ہیں لیکن وہ نہ درست تعداد اور نہ اس حوالے سے شواہد پیش کر سکی ہے۔
شہریوں کے مطابق کئی روز سے جاری اس کشمکش میں ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ معاملہ ختم ہو گیا ہے یا ابھی چل رہا ہے، راستے کب تک کھلے ہیں یا کب اچانک بند ہو جائیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر عوام کو اس بارے میں آگاہ کیا جائے تاکہ کنفیوژن ختم ہو سکے۔
پولیس نے شخوپورہ میں درج مقدمہ میں الزام عائد کیا کہ جی ٹی روڈ پر واقع ظفر آرکیڈ پر ٹی ایل پی کے’تین، ساڑھے تین ہزار افراد جلوس کی شکل میں سڑک کی دونوں طرف موجود تھے۔ ان میں سے اکثر لوگوں نے اپنے ہاتھوں میں ڈنڈَے، پتھر، پیٹرول بم اور اینٹوں کے ٹکڑے اٹھا رکھے تھے۔ کچھ کے پاس تھیلے تھے بہت سے افراد کے پاس آتشیں اسلحہ بھی تھا۔‘
ٹی ایل پی میڈیا سیل کے ایک رکن نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ سعد رضوی سمیت کسی بھی پارٹی رہمنا سے رابطہ نہیں ہو رہا۔ یہی وجہ ہے کہ کارکن بھی پوچھ رہے ہیں کہ وہ کہاں ہیں اور کس حالت میں ہیں لیکن ہم انہیں بھی کوئی معلومات فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔