مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کارکنوں نے ہفتے کی شب سے مریدکے میں پڑاؤ ڈال رکھا ہے، جب کہ مسلسل پانچ دن پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے بعد ٹی ایل پی نے اتوار کو کہا کہ ’حکومتی شخصیات‘ سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے جب کہ حکومت نے بھی معاملے کو ’بات چیت‘ سے حل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
ٹی ایل پی کے امیر سعد رضوی نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کے خلاف جمعہ (10 اکتوبر) سے لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ کی کال دے رکھی تھی، لیکن پولیس اور انتظامیہ نے آٹھ اکتوبر کی رات ہی ٹی ایل پی کے مرکز مسجد رحمت للعالمین کا گھیراؤ کر کے کنٹینر لگا کر کئی کارکن گرفتار کر لیے، تاہم ٹی ایل پی کی قیادت نے مارچ ملتوی کرنے کی بجائے شیڈول کے مطابق لاہور سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔
یہ مارچ جمعے کو ملتان روڈ مرکز سے اسلام آباد کے لیے مارچ روانہ ہوا، تاہم پولیس نے جگہ جگہ کنٹینرز لگا کر رکاوٹیں کھڑی کیں۔ اس دوران پولیس نے آنسو گیس کے شیل فائر کیے تو جواب میں ٹی ایل پی کارکنوں نے بھی پتھراؤ کیا، جس کے نتیجے میں پولیس کے 100 سے زائد جوان زخمی ہوگئے۔ ٹی ایل پی کے مطابق ان کے بھی 150 کے قریب کارکن زخمی جبکہ 12 جان سے چلے گئے۔
جمعے کی رات شاہدرہ قیام کے بعد ہفتے کو مارچ دوبارہ روانہ ہوا تو پولیس اور شرکا میں کالا شاہ کاکو اور مرید کے پہنچنے تک مسلسل جھڑپیں ہوتی رہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹی ایل پی لاہور کے سیکرٹری اطلاعات محمد یوسف نے اتوار کو انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہمارا مارچ ہفتے کی رات مریدکے پہنچا، جہاں جان سے جانے والے کارکنوں کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی۔ اسی دوران بعض مذہبی و سیاسی رہنماؤں کی جانب سے ٹی ایل پی قیادت سے رابطے کیےگئے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہماری قیادت، جو پُر امن احتجاج اور بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے پر یقین رکھتی ہے، نے مذاکرات کے لیے حامی بھری، جس کے بعد حکومتی شخصیات سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس حوالے سے جو بھی فیصلہ ہوگا میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا۔‘
ہفتے کو وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر رانا ثنا اللہ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ حکومت تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’پر تشدد احتجاج کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘
ٹی ایل پی لاہور کے سیکرٹری اطلاعات محمد یوسف نے انڈپینڈنٹ اردو کو مزید بتایا: ’مارچ کے شرکا پر شیلنگ اور فائرنگ کا سلسلہ روک دیا گیا ہے جب کہ امیر ٹی ایل پی سعد رضوی کے اہل خانہ کو بھی رات کو ہی چھوڑ دیا گیا۔‘
ڈی آئی جی لاہور پولیس فیصل کامران نے ہفتے کو میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’ٹی ایل پی شرکا نے شاہدرہ تھانے پر حملہ کیا اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔ ہم نے متعدد کارکنوں کو گرفتار کرلیا ہے۔‘
پولیس کے مطابق اب تک احتجاج اور توڑ پھوڑ میں ملوث ٹی ایل پی کے 100 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ، تاہم ٹی ایل پی کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے اس کے 700 کارکنوں کو حراست میں لیا ہے۔
ٹی ایل پی مارچ کے باعث لاہور سمیت جی ٹی روڈ سے ملحقہ شہروں میں نظام زندگی مفلوج رہا جبکہ اسلام آباد اور ملتان موٹر وے اور جی ٹی روڈ بند ہونے سے آمدو رفت بھی شدید متاثر ہو رہی ہے۔
دوسری جانب جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی کے داخلی و خارجی راستوں پر بھی مسلسل تیسرے روز کنٹینرز رکھے ہوئے ہیں۔