حکومت سے مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں: تحریک لبیک سربراہ

ٹی ایل پی کے امیر حافظ سعد حسین رضوی نے مریدکے میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ان کے پاس مارچ کا اجازت نامہ موجود ہے اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں۔ 

تحریکِ لبیک پاکستان کے سربراہ سعد رضوی 10 جون، 2022 کو لاہور میں احتجاج کے دوران خطاب کر رہے ہیں (اے ایف پی)

تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے امیر حافظ سعد حسین رضوی نے اتوار کو مریدکے میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ان کے پاس مارچ کا اجازت نامہ موجود ہے اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کے دروازے اب بھی کھلے ہیں۔ 

ٹی ایل پی نے اس سے قبل حکومت کی جانب سے مذاکرات کے ایک دور کے بعد دوبارہ رابطہ نہ کرنے پر تشویش ظاہر کی تھی۔

تنظیم نے جمعے کو لاہور سے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے تک غزہ کے لیے مارچ شروع کیا تھا اور اس وقت مارچ نے لاہور کے قریب مرید کے میں قیام کیا ہوا ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ ٹی ایل پی نے مارچ کے لیے باقاعدہ کوئی اجازت نامہ نہیں لیا۔

حکومت نے مارچ کو اسلام آباد پہنچنے سے روکنے کے لیے لاہور سمیت پنجاب کے کئی شہروں میں رکاوٹیں کھڑی کی تھیں۔

جمعے اور ہفتے کو لاہور سمیت مختلف علاقوں میں پارٹی کارکنوں اور پولیس میں تصادم ہوتا رہا، جس کے بعد ہفتے کی رات کو مرید کے میں پڑاؤ کے دوران حکومت کی جانب سے مذاکرات کا ایک دور ہوا۔

سعد حسین نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ حکومت نے مذاکرات کے لیے شرط رکھی کہ احتجاج روکا جائے، حالانکہ ان کے بقول احتجاج کل سے رکا ہوا ہے۔ 

افغانستان کی جانب سے سرحد پر جھڑپوں کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم انڈین جارحیت کے خلاف افواج کے ساتھ کھڑے تھے، اب بھی کسی جارحیت کے خلاف قوم کے ساتھ کھڑے ہیں۔

انہوں نے مارچ کے حوالے سے واضح کیا کہ ان کا بنیادی مقصد فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی ہے اور اُن کا مارچ اسرائیل کے خلاف ہے — کسی مخصوص ذاتی یا داخلی مقصد کے خلاف نہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ دنیا کے بڑے شہروں مثلاً اوسلو اور سڈنی میں آج بھی فلسطین کے حق میں مظاہرے ہوئے، لیکن ہمیں پاکستان کے دارالحکومت جانے سے روکا جا رہا ہے۔

پریس کانفرنس میں ٹی ایل پی نے الزام لگایا کہ ان کے کئی کارکن سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے جان سے گئے اور بے شمار زخمی ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ گھروں، مزاروں اور مساجد پر چھاپے مارے گئے اور اہل خانہ کو اغوا کرنے کے واقعات بھی سامنے آئے۔ 

سعد رضوی نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ایک ’ہینڈ شیک‘ کے لیے اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور وہ اس ظلم کو اپنے سینوں پر برداشت کریں گے مگر فلسطین کی حمایت سے دست بردار نہیں ہوں گے۔

اس سے قبل ترجمان ٹی ایل پی نے کہا کہ ان کی جماعت مذاکرات کے دوبارہ آغاز کی منتظر ہے اور حکومت کا رابطہ نہ کرنا ’انتہائی تشویش ناک‘ ہے۔

ترجمان نے کہا کہ ماضی میں بھی حکومت نے یہی رویہ اختیار کیا اور مارچ شروع ہونے سے قبل رابطہ نہیں کیا گیا۔

ان کے بقول مذاکرات شروع ہوتے ہی جماعت نے اپنا پُرامن مارچ مریدکے میں روک لیا اور قافلہ اب بھی وہیں قیام پذیر ہے۔

ترجمان نے الزام عائد کیا کہ قائدین کے گھروں کو مسمار کرنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے، جس کی جماعت نے شدید مذمت کی۔

’ہم پُرامن تھے اور پُرامن ہیں لیکن حکومتِ پاکستان کا یہ رویہ قابلِ مذمت ہے۔‘

ترجمان ٹی ایل پی نے خبردار کیا کہ موجودہ حالات کی تمام تر ذمہ داری حکومت پاکستان پر عائد ہوگی۔

یہ مارچ جمعے کو لاہور میں ملتان روڈ مرکز سے روانہ ہوا، تاہم پولیس نے جگہ جگہ کنٹینرز لگا کر اسے روکنے کی کوشش کی۔

جمعے کی رات شاہدرہ میں قیام کے بعد ہفتے کو مارچ دوبارہ روانہ ہوا تو پولیس اور شرکا میں کالا شاہ کاکو اور مرید کے پہنچنے تک مسلسل جھڑپیں ہوتی رہیں۔

ٹی ایل پی کا دعویٰ ہے کہ پولیس سے تصادم کے دوران اس کے 150 کے قریب کارکن زخمی ہوئے جبکہ 12 جان سے چلے گئے۔

ڈی آئی جی لاہور پولیس فیصل کامران نے ہفتے کو میڈیا کو بتایا کہ اس کے تقریباً 100 اہلکار زخمی ہوئے۔

’ٹی ایل پی شرکا نے شاہدرہ تھانے پر حملہ کیا اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔ ہم نے متعدد کارکنوں کو گرفتار کر لیا ہے۔‘

پولیس کے مطابق اب تک احتجاج اور توڑ پھوڑ میں ملوث ٹی ایل پی کے 100 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، تاہم ٹی ایل پی کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے اس کے 700 کارکنوں کو حراست میں لیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹی ایل پی لاہور کے سیکریٹری اطلاعات محمد یوسف نے اتوار کو انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’ہمارا مارچ ہفتے کی رات مریدکے پہنچا، جہاں جان سے جانے والے کارکنوں کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی۔

’اسی دوران بعض مذہبی و سیاسی رہنماؤں کی جانب سے ٹی ایل پی قیادت سے رابطے کیے گئے۔‘

انہوں نے کہا ’ہماری قیادت نے، جو پُرامن احتجاج اور بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے پر یقین رکھتی ہے، مذاکرات کے لیے حامی بھری، جس کے بعد حکومتی شخصیات سے مذاکرات ہوئے۔

یوسف کے مطابق ’مارچ کے شرکا پر شیلنگ اور فائرنگ کا سلسلہ روک دیا گیا ہے جب کہ امیر ٹی ایل پی سعد رضوی کے اہل خانہ کو بھی رات کو ہی چھوڑ دیا گیا۔‘

وزیر اعظم شہباز شریف کے مشیر رانا ثنا اللہ نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان گذشتہ رات سرحدی جھڑپوں کے بعد آج ٹی ایل پی کے قائدین سے پاکستان اور مسلح افواج کا ساتھ دینے کی اپیل کی۔

فیصل آباد میں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’غزہ میں سفارتی کوششوں سے جنگ بندی ہوئی۔ مارچ ختم کیا جائے تاکہ عوام کی مشکلات کا ازالہ کیا جا سکے۔‘

اس سے قبل گذشتہ روز رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ حکومت تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا ’پر تشدد احتجاج کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان