امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی کارکردگی کو غیر متاثر کن قرار دیا ہے، لیکن ناقدین کے خیال میں اس ناقص کارکردگی کا الزام عالمی طاقتوں پر بالعموم اور امریکہ پر بالخصوص عائد کیا جانا چاہیے۔
ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اس عالمی ادارے پر خوب تنقید کے نشتر چلائے اور تحقیر آمیز انداز میں کہا کہ یہ ادارہ امن قائم کرنے میں غیر موثر ثابت ہوا ہے۔
تاہم کئی مبصرین کے خیال میں عالمی طاقتوں نے بنیادی طور پر اس ادارے کو مفلوج کرنے میں اہم کردار ادا کیا جبکہ موجودہ دور میں اس کو غیر موثر بنانے میں سب سے اہم کردار ٹرمپ خود کر رہے ہیں۔
انہوں نے نہ صرف اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کی امداد کم کی بلکہ ایسے عالمی معاہدوں کی روح کو تباہ کرنے کی کوشش کی جس پر اقوام متحدہ اور اس کے اداروں نے برسوں کام کر کے اتفاق رائے پیدا کیا اور عالمی ضابطے تشکیل دیے۔
اس کی ایک بہترین مثال ماحولیات سے متعلق عالمی معاہدہ ہے۔ ٹرمپ نے نہ صرف امریکہ کو اس معاہدے سے نکالا بلکہ وہ ماحولیات کے خلاف پروپیگنڈا کر کے اس موضوع پر ہونے والی عالمی سائنسی تحقیقات کا جنازہ بھی نکال رہے ہیں۔
ٹرمپ نے تخفیف اسلحہ کے بھی کچھ معاہدوں کو خیر باد کہا۔ آج امریکہ ہتھیاروں کا سب سے بڑا علم بردار ہے اور ٹرمپ خلا کو بھی جنگی جنون میں لپیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کے لیے وہ پہلے ہی ایک خلائی فورس کا اعلان کر چکے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ اقوام متحدہ کے قیام کے باوجود دنیا میں 280 سے زیادہ چھوٹی بڑی جنگیں ہوئیں۔ تاہم ان جنگوں کو روکنے کی اس عالمی ادارے نے بھر پور کوششیں کیں، جو عالمی طاقتوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔
1946 سے لے کر اب تک دنیا کئی موقعوں پر تیسری عالمی جنگ کے طرف بڑھی۔1950 کی دہائی کی جنگِ کوریا، 1960 کی دہائی کا کیوبن میزائل بحران، 1960 اور 1970 کی دہائیوں کی جنگِ ویت نام اور 1980 کی دہائی کی افغان جنگ دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتی تھی۔
لیکن اقوام متحدہ اور اس کے اداروں نے دنیا بھر کے امن پسندوں اور ان کی تنظیموں کے ذریعے حکمرانوں پہ دباؤ ڈلوایا کہ وہ اجتماعی پاگل پن کی طرف نہ بڑھیں۔
ممالک کی خود مختاری اور طاقت کے استعمال سے گریز اقوام متحدہ کے بنیادی اصولوں میں سے اہم اصول ہیں۔ امریکہ پر یہ الزام ہے کہ اس نے خود اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی کی۔
عراق اور افغانستان پر حملہ کیا اور متعدد موقعوں پر طاقت کے استعمال کی دھمکی دی۔ اسی طرح واشنگٹن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے چار مرتبہ سے زیادہ جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی۔
امریکہ کے قریبی اتحادی اسرائیل نے بھی اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈالا۔
واشنگٹن پر یہ بھی الزام ہے کہ اس نے ایک سو سے زیادہ مطلق العنان بادشاہوں، آمروں، جابروں اور غیر جمہوری حکمرانوں کی پشت پناہی کی۔ چلی، گوئٹے مالا، ایران اور انڈونیشیا سمیت کئی ممالک میں جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹا گیا۔
جمہوریت پر شب خون مارنا اقوام متحدہ کے بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ایسا کرنے والوں کے ساتھ کھڑے رہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک میں ایسی بیماریوں کا خاتمہ ممکن ہوا جو عشروں سے ان کو اپاہج کر رہی تھیں۔
شرح زندگی میں مجموعی طور پر اضافہ ہوا۔ خواندگی میں بہتری آئی۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے ابتدائی عشروں میں سوویت یونین کی مدد سے کئی ممالک میں ٹیکنالوجی کی منتقلی بھی ہوئی۔
ان اداروں نے ماحولیات، صحت، پینے کا صاف پانی، رہائش، خلائی و سمندری تحفظ، تخفیف اسلحہ، ٹیکنالوجی اور دوسرے کئی موضوعات پر انتہائی قیمتی اور اہم تحقیقات کیں۔
ان تحقیقات نے یہ بتایا 100 سے زائد ممالک کو پینے کا صاف پانی، ابتدائی تعلیم و صحت کی سہولت اور نکاسی آب کی فراہمی صرف 50 ارب ڈالرز میں ممکن ہے۔
افریقہ میں انتہائی غربت کو صرف پانچ ارب ڈالرز میں ختم کیا جا سکتا ہے جب کہ اوزون کی سطح کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ صرف 50 سے 60 ارب یوروز میں ممکن ہے۔
یہ اقوام متحدہ کے ہی ادارے یا ان سے منسلک ادارے تھے جنہوں نے اس بات پہ تشویش ظاہر کی کہ دنیا دو کھرب ڈالرز سے زیادہ دفاع پہ خرچ کر رہی ہے۔
صرف امریکہ 1945 سے لے کر اب تک 24 کھرب ڈالرز سے زیادہ جنگ، جنگی اخراجات، دفاع اور افواج پہ خرچ کر چکا ہے۔
یہ اقوام متحدہ یا اس سے منسلکہ ادارے ہی تھے جنہوں نے اس بات کی اہمیت پہ زور دیا کہ اس پیسے کو دنیا سے غربت، بھوک، افلاس، بیماریوں وباوں اور بے گھری کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔
امریکہ عالمی قوانین کی امتیازانہ انداز میں تشریح کرتا ہے۔ تاہم اقوام متحدہ نے بغیر کسی لگی لپٹی کے عالمی قانون کی خلاف ورزی کی شدید مذمت کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چاہے وہ چین کے مغربی صوبے میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک ہو یا یوکرین پر حملہ، غزہ میں بربریت ہو یا برما کی آمریت، یمن میں بمباری ہو، یا تیسری دنیا کے ممالک میں چھوٹی قومیتوں کے ساتھ زیادتیاں۔
اقوام متحدہ نے ہر موقعے پر ان کی کھل کر مذمت کی اور ان پر اقدامات کرنے کی کوششیں بھی کیں۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ کئی معاملات میں اقوام متحدہ اتنا متاثر کن کردار ادا نہیں کر سکی جتنا اس کو کرنا چاہیے تھا، لیکن اس کے عہدے داروں نے ہمیشہ اپنا نقطہ نظر تاریخ کے اوراق میں رقم کروایا۔
مثال کے طور پر موجودہ دور میں بھی غزہ، سوڈان، یمن یا دوسرے علاقوں میں جو ظلم و بربریت ہوئی، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سمیت کئی اداروں کے سربراہوں نے اس کی شدید مذمت کی اور اس کو قابو پانے کے لیے کوششیں بھی کی۔
تاہم عالمی طاقتوں کے دباؤ کی وجہ سے وہ کوششیں مفلوج ہوئیں جس میں سر فہرست امریکہ ہے۔
آج بھی صدر ٹرمپ کا امریکہ پانامہ پہ قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ تمام بین الاقوامی قوانین کی پامالی کرتے ہوئے غزہ میں ریئل سٹیٹ کے خواب دیکھتا ہے۔ کینیڈا کو الحاق کی دھمکی دیتا ہے۔ میکسیکو کو ڈراتا ہے اور گرین لینڈ کو ہتھیانے کی بات کرتا ہے۔
یہی نہیں بلکہ صدر ٹرمپ خود ڈبلیو ٹی او کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نہ صرف اپنے دشمنوں بلکہ اتحادیوں کے خلاف بھی ٹیرف کی تلوار چلاتے ہیں۔
واضح رہے ڈبلیو ٹی او قوانین پر مبنی عالمی نظام کا اہم حصہ ہے، جس کی بنیاد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد رکھی تھی۔
اگر امریکی صدر واقعی اقوام متحدہ کی کارکردگی کو متاثر کن بنانا چاہتے ہیں تو اس ادارے سے بھر پور مالی تعاون کریں، عالمی عدالتِ انصاف کو دھمکیاں دینا بند کریں، اقوام متحدہ کی ان قراردادوں پر عمل کرائیں جو خود امریکہ، اس کے اتحادی اور اس کے سب سے محبوب ملک اسرائیل کے حوالے سے ہیں۔
اس کے علاوہ اس ادارے سے عالمی طاقتوں کا ویٹو ختم کرائیں، جنرل اسمبلی کو با اختیار بنائیں اور اقوام متحدہ کے فیصلوں پہ عمل درآمد کروانے کے لیے ایک عالمی فوج تشکیل دیں، جس میں تمام ممالک کی برابر کی نمائندگی ہو۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔