اقوامِ متحدہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اتوار کو کہا کہ غزہ میں قحط مزید پھیلنے سے روکنے کا ایک ’محدود موقع‘ ہے، اور انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ محصور علاقے میں بلا رکاوٹ امداد کی ترسیل کی اجازت دے۔
عالمی قحط کی نگرانی کرنے والے ادارے کے مطابق، سینکڑوں ہزار فلسطینی پہلے ہی قحط کا شکار ہیں یا انہیں اس کا خطرہ، خاص طور پر غزہ شہر میں۔
اسرائیل، جس نے مارچ سے مئی کے وسط تک 11 ہفتے تمام امداد بند رکھی تھی، کا کہنا ہے کہ وہ اب زیادہ اقدامات کر رہا ہے تاکہ غذائی قلت کو روکنے کے لیے امداد داخل ہو اور تقسیم کی جا سکے، تاہم بین الاقوامی اداروں کا کہنا ہے کہ اس سے کہیں زیادہ امداد کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے امدادی سربراہ ٹام فلیچر نے کہا: ’ستمبر کے آخر تک ایک محدود موقع ہے تاکہ قحط کے پھیلاؤ کو دیر البلح (وسطی غزہ) اور خان یونس (جنوبی غزہ) تک پہنچنے سے روکا جا سکے۔ یہ موقع تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔‘
انسانی امداد سے متعلق امور کی ذمہ دار اسرائیلی محکمہ دفاعی ایجنسی ’کوگاٹ‘ نے اتوار کو کہا کہ گذشتہ ہفتے میں امداد کے 1,900 سے زائد امداد کے ٹرک، جن میں زیادہ تر خوراک تھی، غزہ میں تقسیم کیے گئے۔
کوگاٹ نے اپنے بیان میں کہا: ’ہم غزہ کی شہری آبادی کے لیے انسانی امداد کی سہولت دیتے رہیں گے – حماس کے لیے نہیں۔‘
گذشتہ ماہ اسرائیل نے غزہ شہر کے نواحی علاقوں میں حملہ شروع کیا اور اب اس کی افواج شہر کے مرکز سے صرف چند کلومیٹر دور ہیں۔ اس نے شہریوں کو متنبہ کیا کہ وہ اونچی عمارتیں خالی کر دیں جنہیں اسرائیل کے مطابق حماس استعمال کر رہا ہے، اس کے بعد ان عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیل نے اس الزام کے ثبوت فراہم نہیں کیے جبکہ حماس نے اس الزام کی تردید کی۔
مقامی محکمہ صحت کے مطابق، اتوار کی شب کی بمباری میں شہر بھر میں 14 افراد جان سے گئے، جن میں جنوبی غزہ شہر کے ایک سکول پر حملہ بھی شامل ہے جہاں بے گھر فلسطینی پناہ لیے ہوئے تھے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ اس نے ایک حماس کے عسکریت پسند کو نشانہ بنایا اور یہ کہ کارروائی سے پہلے شہریوں کو خبردار کیا گیا تھا۔
فوج نے ہفتے کو بھی غزہ شہر کے شہریوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ جنوب کی طرف، بشمول خان یونس، نکل جائیں جہاں پہلے ہی لاکھوں فلسطینی ساحل کے ساتھ قائم تنگ خیمہ بستیوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
’بس بہت ہو گیا‘
چونکہ سیکڑوں ہزار لوگ اب بھی غزہ شہر میں موجود ہیں، اس لیے جنگ ختم کرنے کے مطالبات اور دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
غزہ کے ایک رہائشی عماد نے کہا: ’ہم حماس سے کہتے ہیں، ہم فائربندی چاہتے ہیں، اس جنگ کو ختم کریں اس سے پہلے کہ غزہ شہر ملبے کا ڈھیر بن جائے جیسے رفح تباہ ہوا تھا۔‘
انہوں نے فون پر کہا: ’ہم اس جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ یہ کب تک جاری رہے گی؟ کتنی زندگیاں ضائع ہوں گی؟ بس بہت ہو گیا۔‘ انہوں نے اپنا پورا نام شائع نہ کرنے کی درخواست کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ جنگ اسرائیلی عوام میں بھی تیزی سے غیر مقبول ہو رہی ہے۔ ہفتے کی شب، دسیوں ہزار مظاہرین قیدی بنائے گئے افراد کے خاندانوں کے ساتھ احتجاجی ریلیوں میں شریک ہوئے، جنگ ختم کرنے اور قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
غزہ میں موجود 48 قیدیوں میں سے 20 کے بارے میں خیال ہے کہ وہ اب بھی زندہ ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ خارجہ گیڈون سار نے کہا کہ جنگ فوراً ختم ہو سکتی ہے اگر حماس قیدیوں کو رہا کرے اور اپنے ہتھیار ڈال دے۔
انہوں نے مقبوضہ بیت المقدس میں ایک پریس کانفرنس میں کہا: ’ہمیں اس مقصد کو سیاسی طریقے سے حاصل کرنے پر زیادہ خوشی ہوگی۔‘
جواب میں حماس کے سینئر اہلکار باسم نعیم نے حماس کا دیرینہ مؤقف دہراتے ہوئے کہا کہ گروپ ہتھیار نہیں ڈالے گا لیکن تمام قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے اگر اسرائیل اپنی تمام افواج غزہ سے نکال لے جارحیت ختم کرے۔
سات اکتوبر 2023 کو حماس کے زیر قیادت حملے میں 1,200 افراد جان سے گئے اور 251 کو قیدی بنا کر غزہ لے جایا گیا، جس کے بعد سے جاری اسرائیلی جارحیت میں اب تک 64,000 سے زائد فلسطینی مارے گئے ہیں۔
ڈنمارک کے وزیرِ خارجہ لارس لوکے راسموسن نے مقبوضہ بیت المقدس میں اپنے اسرائیلی ہم منصب کے ساتھ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو اپنی پالیسی بدلنے اور اپنی فوجی کارروائی روکنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا: ’ہم انسانی صورت حال کے بارے میں انتہائی فکر مند ہیں،‘ اور ساتھ ہی قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔