اسرائیل نے غزہ کی دوسری بلند عمارت تباہ کر دی

علاقے کی معروف پہچان 15 منزلہ سوسی ٹاور کے رہائشیوں بتایا کہ اسرائیل نے انہیں عمارت خالی کرنے کے لیے صرف 20 منٹ دیے۔

عمارت کے رہائشی سات ستمبر 2025 کو اسرائیلی بمباری سے تباہ ہونے والے سوسی ٹاور کی جگہ ملبے کے ڈھیر سے اپنا بچا کچا سامان تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں (اے ایف پی)

اسرائیلی فوج نے غزہ شہر میں دو دن میں تباہ حال پٹی کی دوسری بلند ترین عمارت تباہ کر دی۔ قبل ازیں اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کی فوج نے فلسطینی عوام کو متنبہ کیا کہ وہ جنوب کی طرف چلے جائیں جب کہ یہ اسرائیلی حملہ علاقے پر قبضے کے لیے منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔

15 منزلہ سوسی ٹاور علاقے کی معروف پہچان تھا۔ عمارت کے رہائشیوں بتایا کہ انہیں صرف 20 منٹ دیے گئے تاکہ جو کچھ ساتھ لے جا سکتے ہیں سمیٹ لیں اور عمارت خالی کر دیں۔ بعد میں جنگی طیاروں نے عمارت کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔

اسرائیلی فوج نے کہا کہ حماس اس عمارت کو خفیہ معلومات جمع کرنے کے لیے استعمال کر رہی تھی اور قریب ہی بارودی مواد نصب کیا گیا۔ تاہم حماس نے اس دعوے کی تردید کی۔ مقامی لوگوں نے کہا کہ یہ عمارت بے گھر ہونے والوں کو پناہ دینے کے لیے استعمال ہوتی ہو رہی تھی۔

اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاتز نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ویڈیو شیئر کی جس میں دکھایا گیا کہ حملے کے بعد یہ کثیرمنزلہ عمارت گر گئی اور دھول و ملبے کا بادل فضا میں پھیل گیا۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ’ہماری کارروائی جاری ہے۔‘

سوسی ٹاور کی رہائشی عیدہ ابو قیس نے عمارت سے افراتفری میں انخلا کی صورت حال بیان کرتے ہوئے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا: ’ہم گھر میں بیٹھے تھے اور لوگ اچانک چلانے لگے۔ کچھ نے کہا یہ جھوٹ ہے اور کچھ نے کہا یہ سچ ہے۔ ہم باہر نکل آئے اور سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کریں۔‘

حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیل کے دعوے کہ ٹاور کو عسکریت پسند استعمال کر رہے تھے جھوٹے ’منظم جبری بے دخلی‘ منصوبے کا حصہ ہیں۔ یہ عمارت سخت نگرانی میں ہے۔ صرف عام شہری اندر جا سکتے ہیں۔‘

اسرائیلی افواج کئی ہفتے سے غزہ شہر کے نواح میں کارروائیاں کر رہی ہیں۔ نتن یاہو نے اپنی فوج کو اس پر قبضہ کرنے کا حکم دیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق شہر اور اس کے گردونواح کے علاقے اس وقت قحط کا شکار ہیں کیوں کہ اسرائیل نے امداد کی فراہمی سختی سے محدود کر دی ہے۔

حملے کے دائرے میں توسیع کی وجہ سے علاقے میں پناہ لینے والے لاکھوں فلسطینیوں کے بے گھر ہونے کا خطرہ ہے۔ یہ لوگ تقریباً دو سال سے جاری لڑائی سے بچنے کے لیے وہاں مقیم ہیں۔ جنگ سے پہلے، لگ بھگ 10 لاکھ لوگ یعنی غزہ کی آبادی کا تقریباً نصف اس شہر میں رہتے تھے۔

حماس کے زیرانتظام اس علاقے کے صحت کے حکام نے کہا کہ ہفتے کو اسرائیلی فضائی اور زمینی حملوں میں کم از کم 40 افراد جان سے گئے جن میں سے نصف غزہ شہر میں مارے گئے۔

غزہ شہر کے فلسطینیوں نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ رہیں یا نکل جائیں۔ شہر کے علاقے زیتون کے رہائشی، 48 سالہ عبدالنصر مشتہٰ نے کہا: ’کچھ لوگ کہتے ہیں ہمیں (علاقہ) خالی کر دینا چاہیے، دوسرے کہتے ہیں ہمیں یہیں رہنا چاہیے۔‘

انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف سے بات چیت میں کہا کہ ’لیکن غزہ میں ہر جگہ بمباری اور موت ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ سال میں سب سے خوفناک بمباری جس میں عام شہری مارے گئے، المواسی میں ہوئی جسے نام نہاد انسانی ہمدردی کا علاقہ کہا جاتا ہے۔‘

قبل ازیں اسرائیلی فوج نے خبردار کیا کہ رہائشی شہر چھوڑ کر جنوبی غزہ کے ساحلی علاقے خان یونس چلے جائیں۔ فوج نے یقین دہانی کرائی کہ وہاں جانے والوں کو خوراک، طبی سہولتیں اور پناہ ملے گی۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان اویخائے ادرعی نے کہا کہ مقررہ علاقہ ’انسانی ہمدردی کا زون‘ ہے۔

فوج نے شہر کے بعض حصوں میں عام شہریوں کے لیے نام نہاد ’انخلا کی وارننگ‘ بھی جاری کی۔ یہ بتایا گیا کہ فوج حملہ کرنے والی ہے۔

اسرائیلی فوج نے جمعے کو ایک اور بلند عمارت پر بمباری کی جس کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ اسے بھی حماس استعمال کر رہا تھی۔ جمعرات کو فوج نے کہا کہ اس کے پاس غزہ شہر کے تقریباً نصف حصے کا کنٹرول ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے پورے غزہ کے تقریباً 75 فیصد علاقے پر کنٹرول حاصل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صحت کے مقامی حکام کے مطابق اسرائیل کی غزہ میں کارروائی میں تقریباً دو سال میں 64 ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ یہ کارروائی اس حملے کے جواب میں شروع کی گئی جو سات اکتوبر 2023 کو حماس کی قیادت میں جنوبی اسرائیلی شہریوں پر کیا گیا جس میں تقریباً 1200 افراد مارے گئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ اس حملے کے بعد عسکریت پسندوں نے 251 افراد کو یرغمال بھی بنایا۔

اسرائیل سے یرغمال بنائے گئے افراد کے خاندانوں اور ان کے حامیوں کی قیادت میں یہ مطالبات تیزی سے بڑھ رہے ہیں کہ جنگ کو سفارتی معاہدے کے ذریعے ختم کیا جائے تاکہ باقی ماندہ 48 قیدیوں کی رہائی ممکن ہو سکے۔ اسرائیلی حکام کا خیال ہے کہ ان یرغمالیوں میں سے 20 اب بھی زندہ ہیں۔

نتن یاہو سب کچھ یا کچھ نہیں قسم کے معاہدے پر زور دے رہے ہیں جس کے تحت تمام یرغمالیوں کو ایک ساتھ رہا کیا جائے اور حماس ہتھیار ڈال دے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کو کہا کہ واشنگٹن فلسطینی عسکریت پسندوں کے ساتھ ’بہت گہرائی میں‘ بات چیت کر رہا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا