پاکستان میں جاری شدید مون سون بارشوں اور انڈیا کے چھوڑے گئے پانی کے نتیجے میں ستلج، راوی اور چناب میں شدید طغیانی سے پنجاب میں تباہی مچانے والا سیلابی ریلا پنجند پر جمع ہونے کے بعد جمعے کو سندھ کے گڈو بیراج پر پہنچنا شروع ہو گیا۔
حالیہ مون سون بارشوں کے نتیجے میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں سیلاب سے شدید نقصان ہوا ہے۔ آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے اعداد و شمار کے مطابق 26 جون سے اب تک ملک بھر میں بارشوں اور سیلاب سے اموات کی تعداد 900 سے زائد ہو گئی ہے۔
پنجاب سے یہ سیلابی ریلا اب سندھ پہنچنا شروع ہو گیا ہے۔ این ڈی ایم اے نے جمعے کی شام کو جاری بیان میں کہا کہ دریائے سندھ کے نشیبی علاقوں میں چھ سے 13 ستمبر کے دوران اونچے درجے کے سیلاب کا خطرہ ہے۔
ساتھ ہی این ڈے ایم اے نے ہدایت کی کہ نشیبی علاقوں میں آباد لوگ فوری طور پر محفوظ مقامات پر منتقل ہوجائیں اور ضلعی انتظامیہ کی ہدایت پر عمل کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سندھ میں ممکنہ سیلاب کی 24 گھنٹے نگرانی کے لیے قائم رین اینڈ فلڈ ایمرجنسی مانیٹرنگ سیل پر مقرر انفارمیشن آفیسر آنند کمار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گڈو بیراج پر جمعے کی صبح پنجند سے آنے والے پانی کے بعد گڈو پر پانی کا بہاؤ تقریباً تین لاکھ 60 کیوسک ہوگیا، جو شام چھ بجے بڑھ کر تین لاکھ 48 ہزار چھ سو کیوسک تک پہنچ گیا۔
جمعے کی صبح مختلف صوبائی وزرا کے ساتھ سیلاب کی صورت حال پر اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ’آٹھ ستمبر کو گڈو بیراج پر پانی کا بہاؤ اپنے عروج پر ہوگا، مگر سندھ حکومت نے ممکنہ ’سپر فلڈ‘ کے لیے تمام تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔
محکمہ آبپاشی سندھ کے مطابق پنجند سے آنے والے سیلابی ریلے کا پانی گڈو بیراج اور سکھر بیراج پر 10 ستمبر تک جاری رہنے کا امکان ہے۔
سندھ میں ’سپر فلڈ‘ کے امکان سے متعلق جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے آب پاشی کے مختلف ماہرین سے گفتگو کی، جن کا کہنا تھا کہ پنجاب میں شدید سیلابی صورت حال کے بعد پانی ہر صورت میں دریائے سندھ میں شامل ہو کر سمندر پہنچے گا، مگر سندھ میں ’سپر فلڈ کا بڑا امکان نہیں ہے۔‘
سندھ حکومت نے سکھر بیراج کنٹرول روم کے سابق انچارج عبدالعزیز سومرو کو سیلاب پر فوکل پرسن نامزد کیا ہے۔ عبدالعزیز سومرو اپنی 40 سال کی ملازمت کے دوران گڈو اور سکھر بیراج سمیت ملک کے تمام بیراجوں، ڈیموں اور دریاؤں میں پانی کے مقدار اور سیلاب کی نگرانی کرتے رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عبدالعزیز سومرو کے مطابق سندھ میں اونچے درجے کا سیلاب یا سپر فلڈ صرف اس صورت میں ممکن ہے، جب دریائے سندھ میں شدید سیلابی صورت حال ہو یا دریائے کابل سے کوئی بڑا سیلابی ریلا آجائے، جب کہ مشرقی دریاؤں ستلج، راوی اور چناب میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کے باوجود سندھ میں سپر فلڈ کا امکان انتہائی کم ہوتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں عبدالعزیز سومرو نے کہا: ’جب دریائے سندھ میں انتہا درجے کی طغیانی ہو تو صوبے میں سپر فلڈ کا بڑا امکان ہوتا ہے، مگر مشرقی ستلج، راوی اور چناب میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کے باجود سندھ میں سپر فلڈ کا کم امکان ہے، جس کی کئی وجوہات ہیں۔
’ستلج، راوی اور چناب میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کے باوجود ان دریاؤں سے سندھ کی طرف بڑے سیلابی ریلے کے نہ آنے کا بڑا سبب یہ ہے کہ پنجند سے پانی کے بہاؤ کی کُل گنجائش پونے سات لاکھ کیوسک ہے۔
’اگر پنجند سے پونے سات لاکھ کیوسک پانی چھوڑا بھی جائے تو گڈو تک پہنچنے تک وہ پانی آدھے سے بھی کم رہ جاتا ہے، جب کہ گڈو بیراج سے پانی کے بہاؤ کی کُل گنجائش 12 لاکھ کیوسک ہے اور سکھر بیراج سے پانی کے بہاؤ کی گنجائش نو لاکھ کیوسک ہے، اس لیے مشرقی دریاؤں میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کے باوجود سندھ میں سپر فلڈ کا کم امکان ہوتا ہے۔‘
عبدالعزیز سومرو کے مطابق مشرقی دریاؤں میں شدید طغیانی کے باجود مختلف دریاؤں کو مصنوعی کٹ یا شگاف لگا کر پانی کو موڑ دیا جاتا ہے، شگاف کے بعد دریا سے باہر نکلنے والے پانی کو کئی روز کے بعد جب دریا کا بہاؤ نارمل ہو جاتا ہے تو دوبارہ اسی پانی کو دریا میں موڑ دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں پانی کی تقسیم کے نگران وفاقی ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے خالد ادریس رانا نے عبدالعزیز سومرو کی بات کی تائید کی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں خالد ادریس رانا نے کہا: ’پنجند سے اگر سیلاب کا کوئی ریلا چھوڑا جائے تو گڈو تک اس پانی کا صرف 40 فیصد پہنچتا ہے۔
’دریاؤں میں ہر سال سیلاب نہیں ہوتا اس لیے دریا کا بہت بڑا حصہ خالی ہوتا ہے، پنجند سے نکلنے والے ریلے کا 60 فیصد ان خالی حصوں کو بھر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ سیپج بھی ہوتی ہے اور گڈو سے پانی کے بہاؤ کی گنجائش پنجند سے زیادہ ہے، اس لیے مشرقی دریاؤں میں شدید سیلابوں کے باوجود سندھ میں سپر فلڈ کا امکان کم ہوتا۔‘
خالد ادریس رانا نے مزید کہا کہ اگر پنجاب کے دریاؤں میں زیادہ دن سیلابی صورت حال رہے اور پنجند سے گڈو بیراج کے لیے مسلسل کئی روز اونچے ریلے بھیجے جائیں تو شاید گڈو اور سکھر بیراج پر اونے درجے کا امکان ہوسکتا ہے، مگر اس بار گڈو اور سکھر بیراج سے پانی کا ریلا باآسانی گزر کر سمندر تک چلا جائے گا۔
سیلابی صورت حال میں دریاؤں کو کٹ یا شگاف لگانے کی سائنس
عبدالعزیز سومرو کے مطابق پنجاب سے بہنے والے دریا سطح زمین سے نیچے بہتے ہیں۔ ہر دریا پر موجود ہر بیراج سے پانی کے بہاؤ کی ایک گنجائش ہوتی ہے، اس گنجائش سے زائد پانی چھوڑنے کے باعث بیراج کو شدید خطرہ ہوا ہے، اس لیے پنجاب میں ہر دریا پر دو بیراجوں کے درمیان ’بریچنگ پوائنٹ‘ مستقل طور پر رکھے جاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’ایسا نہیں ہے کہ یہ بریچنگ پوائنٹ صرف سیلاب آنے کی صورت میں مارک کیے جاتے ہیں بلکہ دریاؤں کے ساتھ سٹریٹجک انسٹالیشنز، بڑے شہروں کو مد نظر رکھ کر مسقل طور پر مارک کی جاتی ہیں کہ اگر کسی دریا میں فلاں بیراج سے فلاں بیراج کے درمیاں پانی کا بہاؤ مطلوبہ مقدار سے بڑھ گیا تو اس بریچنگ پوائنٹ پر شگاف لگا کر پانی کے بہاؤ میں کمی کی جاتی ہے تاکہ بیراج کو نقصان نہ پہنچے۔
’ہر بریچنگ پوائنٹ پر دریا کے باہر بند بھی باندھے جاتے ہیں تاکہ مصنوعی شگاف ڈالنے کے بعد پانی انسانی آبادیوں کو نقصان نہ پہنچائے اور دریا کے مرکزی بہاؤ کو کم کرے اور جب بہاؤ نارمل ہو جائے تو اسی پانی کو واپس دریا میں بہا دیا جاتا ہے۔‘
خالد ادریس رانا کے مطابق کسی بھی دریا کے کسی بھی مقام پر اونچے درجے کے سیلاب کے بعد مصنوعی شگاف لگانے یا نہ لگانے کا فیصلہ وہاں کی مقامی ضلعی انتظامیہ کرتی ہے اور عام طور دھماکہ خیز مواد سے شگاف لگایا جاتا ہے۔
حکومت سندھ نے ممکنہ سیلاب کے پیش نظر صوبے میں ’سپر فلڈ‘ کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ کئی علاقوں سے لوگوں کا انخلا کر دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ انسانوں اور جانوروں کے ریلیف کیمپس لگا دیے گئے ہیں۔ ریلیف کیمپوں میں انسانوں کی خوراک کے علاوہ علاج کا بھی بندوبست کیا گیا، اس طرح جانوروں کے کیمپ میں چارے کے ساتھ علاج اور ویکسین کا بھی بندوبست کیا گیا ہے۔
سندھ کے صوبائی سینیئر وزیر شرجیل انعام میمن کہتے ہیں کہ سیلابی پانی کے بہاؤ میں کمی بیشی کے پیش نظر حکومت سندھ نے تمام حفاظتی اقدامات کو یقینی بنایا ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’پانی کے بہاؤ کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے سیلابی خطرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت سندھ، پنجاب حکومت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔‘