فن کی کوئی حد نہیں ہوتی اور کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک منی ایچر آرٹسٹ نے یہ ثابت کر دیا ہے، جنہوں نے اپنی محنت اور باریک بینی سے ایسے فن پارے تخلیق کیے ہیں، جو عام آنکھ سے دیکھنا مشکل ہے۔
قسیم رحیم ابتدا میں کیلی گرافی آرٹسٹ کے ماہر رہے ہیں اور بعد میں منی ایچر آرٹ کی طرف راغب ہوئے۔
انہوں نے داڑھی کے ایک بال پر ’کلمہ طیبہ‘ لکھا، خشخاش کے ایک دانے پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بنایا، کلونجی کے دانے پر خانہ کعبہ کی تصویر پینٹ کی اور اس کے علاوہ چاول، دال اور پیپر پن جیسے نہایت چھوٹے میڈیمز پر 18 مختلف ممالک کے پرچم پینٹ کیے۔
قسیم رحیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان سب فن پاروں کو بنانے کے لیے انہوں نے واٹر کلر کا استعمال کیا، جو کہ منی ایچر پینٹنگ میں ایک نہایت مشکل میڈیم سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں رنگ کنٹرول کرنا اور باریکی سے کام لینا نہایت چیلنجنگ ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’ایسی باریک سطحوں پر کام کرنے کے لیے نہ صرف بے حد صبر کی ضرورت ہوتی ہے، بلکہ ہاتھ کی لرزش پر مکمل کنٹرول، تیز نظر اور بھرپور فوکس بھی ضروری ہوتا ہے۔ ہر فن پارہ کئی گھنٹوں، بلکہ دنوں کی محنت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس ایک فن پارے کو تیار کرنے میں دن رات ایک کر کے بھی چار دن لگ جاتے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قسیم اپنے آرٹ کے ذریعے ملک میں موجود ٹیلنٹ کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’میرا مقصد دنیا کو یہ دکھانا ہے کہ پاکستان میں بھی وہ ٹیلنٹ موجود ہے جو عالمی معیار پر پورا اتر سکتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگ پاکستان کو صرف سیاسی یا معاشی خبروں کے ذریعے نہ پہچانیں، بلکہ فن، تخلیق اور مہارت کے ذریعے بھی دنیا میں ہمارا مقام بنے۔‘
بقول قسیم وہ اس فن کے ’موجد‘ ہیں اور پاکستان میں کسی اور آرٹسٹ نے اتنی چھوٹی اشیا پر کام نہیں کیا۔ ’میں اپنے آپ کو موجد خود نہیں کہتا بلکہ منسٹری آف کلچر، آرٹس کونسل آف پاکستان نے باقاعدہ میرے کام کر 1998 میں تسلیم کیا۔‘
قسیم 1996 سے مختصر نقاشی کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان 30 سالوں میں انہوں نے 1997 میں دبئی شاپنگ فیسٹیول میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ آئیڈیاز 2000 میں اپنی فوج کے لیے سوینیئرز بنایا، جس میں مائیکرو سوئی پر 18 ممالک کے پرچم بنائے۔ اس کے علاوہ انہوں نے چاول کے دانے پر بھی پرچم بنایا۔
انہوں نے کہا: ’میں نے 30 سال اس فن کو، اس ملک کو دیے، دنیا میں کوئی بھی میرے فن کے برابر نہیں ہے۔ میں اب بھی پاکستان کا نام اس سطح پر لانے کا ذریعہ بن سکتا ہوں جو بڑے بڑے آج تک نہیں کر سکے۔‘
لیکن انہیں افسوس ہے کہ انہوں کسی حکومتی ادارے کی جانب سے باقاعدہ شناخت نہیں دی گئی۔ بقول قسیم: ’میں چاہتا ہوں کہ مجھے میرے فن کے ذریعے پاکستان میں پہچانا جائے۔ آنے والے کل میں زندگی رہے نہ رہے لیکن سب کو یہ ضرور یاد رہے کہ پاکستان میں قسیم رحیم مائیکرو منی ایچر آرٹسٹ نے حیران کن فن پارے تخلیق کیے۔
’جس طرح صادقین اور گل جی نے اپنا نام بنایا۔ اپنے فن کی بنیاد پر پاکستان میں پہچانے گئے۔ میں بھی ان کی طرح پہچان کا حقدار ہوں۔‘