سوات سے تعلق رکھنے والے خائستہ رحمان پولیو کی وجہ سے چلنے سے قاصر ہیں، مگر ان کی رنگوں سے محبت اور فن کے عزم نے انہیں ایک سٹریٹ آرٹسٹ بنا دیا ہے۔
وہ دیواروں پر بنائی گئی اپنی پینٹنگز کے ذریعے معاشرے کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہمت اور خودداری ہی انسان کی اصل طاقت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں خائستہ رحمان نے کہا کہ لوگ انہیں ’خائستہ پینٹر‘ کہتے ہیں۔ ’میں پولیو کا شکار ہوں۔ سکول میں میرے دوست کہتے تھے کہ ہم کراچی جائیں گے کام کے لیے، تو میں سوچتا تھا کہ میں کیا کروں گا؟ دیہاڑی؟ مزدوری؟ پھر سوچا کہ ایسا ہنر سیکھوں جو میری معذوری کے باوجود میرا سہارا بنے۔‘
جس کے بعد انہوں نے پینٹنگ کا آغاز کیا اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
وہ بتاتے ہیں: ’اللہ کا شکر ہے کہ اسی ہنر نے مجھے نہ صرف گھر دیا بلکہ بیرونِ ملک بھی کام کے مواقع ملے۔ سعودی عرب، مدینہ منورہ، جدہ۔۔۔سب جگہ کام کیا ہے۔ احد کے پہاڑ کے قریب بھی پینٹنگ کی ہے، آیات لکھی ہیں، مساجد کے اندرونی حصے سنوارے ہیں۔‘
سوات میں آج بھی کئی سکولوں، مارکیٹوں اور سرکاری عمارتوں کی دیواریں خائستہ رحمان کے فن کی گواہ ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’جو رنگ میں بناتا ہوں، یہ آسان کام نہیں۔ بہت محنت لگتی ہے۔ ہر رنگ کو ترتیب دینا پڑتا ہے۔ جب لوگ تعریف کرتے ہیں تو خوشی ہوتی ہے کہ میری محنت رنگ لے آئی۔‘
ان کی کچھ پینٹنگز نے مقامی مقابلوں میں انعامات بھی جیتے ہیں۔
خائستہ رحمان کے نزدیک سب سے اہم چیز خودداری ہے۔وہ کہتے ہیں: ’میرا پیغام یہ ہے کہ ہمت نہ چھوڑیں۔ محنت کریں۔ معذور ہوں یا صحت مند، جو محنت کرے گا وہ کبھی کسی کا محتاج نہیں ہوگا۔‘
مقامی رہائشی سیفور رحمان، جنہوں نے اپنی عمارت کی پینٹنگ کے لیے خائستہ رحمان کو بلایا، ان کے فن اور اخلاق دونوں کے معترف ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’میں نے ان سے فون پر رابطہ کیا اور وہ فوراً آگئے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو پولیو کا شکار ہونے کے باوجود کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے بلکہ اپنی محنت سے روٹی کماتے ہیں۔ ان کی پینٹنگ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کتنے نفیس فنکار ہیں۔ اخلاق بھی بہترین ہے۔‘