دنیا کے ترقی یافتہ معاشرے اس بات پر متفق ہیں کہ کسی فرد کی قدر اس کی جسمانی یا ذہنی صلاحیت سے نہیں بلکہ اس بات سے متعین ہوتی ہے کہ معاشرہ اسے کس قدر مواقع اور سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ یہی سوچ خصوصی افراد یا خصوصی صلاحیتوں کے حامل شہریوں کے بارے میں عالمی پالیسیوں کی بنیاد ہے۔
ماضی میں انہیں معاشرے کے بوجھ کے طور پر دیکھا جاتا تھا، مگر اب دنیا انہیں انسانی سرمایہ تصور کرتی ہے۔ بشرطیکہ انہیں انصاف (equity) پر مبنی سہولتیں دی جائیں، صرف مساوات (equality) نہیں۔
مساوات کا مطلب سب کو ایک جیسی راہ دینا ہے، مگر انصاف کا تقاضا ہے کہ ہر شخص کے لیے وہی راستہ بنایا جائے جو اس کے چلنے کے قابل ہو۔
اقوامِ متحدہ کے کنونشن برائے حقوقِ معذور افراد (UNCRPD) اور عالمی ادارہ صحت (WHO) کی تعریفوں کے مطابق خصوصی فرد وہ ہے جو جسمانی، ذہنی، بصری، سمعی یا ادراکی فرق کے باعث معاشرتی، تعلیمی، یا معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹ محسوس کرے۔ ایسی رکاوٹ جو زیادہ تر معاشرتی ڈھانچوں کی نااہلی سے جنم لیتی ہے۔
یعنی معذوری دراصل ماحول کی ناکامی ہے، فرد کی نہیں۔ اگر ماحول شمولیتی ہو تو فرق خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔
دنیا کے کئی ممالک نے اس فلسفے کو عملی شکل دی ہے۔ سکینڈے نیویا، جاپان، کینیڈا، امریکہ اور یورپی یونین کے بیشتر ممالک میں Universal Design لازمی اصول ہے۔ ہر نئی عمارت، سڑک، یا ٹرانسپورٹ سسٹم ایسے ڈیزائن ہوتے ہیں کہ ہر شخص، چاہے وہ ویل چیئر پر ہو، سفید چھڑی استعمال کرتا ہو یا سمعی آلے سے سنتا ہو، بآسانی استفادہ کر سکے۔
وہاں تعلیم کے نظام میں inclusive classrooms عام ہیں، جہاں خصوصی طلبہ عام بچوں کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ روزگار میں reasonable accommodation کا اصول لاگو ہے، یعنی کام کی نوعیت اور ماحول کو فرد کی ضرورت کے مطابق ڈھالا جاتا ہے۔
پاکستان میں قانون سازی تو ہوئی ہے مگر اس پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ وفاقی سطح پر 1981 کا Disabled Persons (Employment & Rehabilitation) Ordinance سب سے قدیم قانون تھا، جس کے بعد مختلف صوبوں نے اپنے اپنے قوانین متعارف کروائے تاکہ خصوصی افراد کے حقوق کو تسلیم کیا جا سکے۔
اسلام آباد میں 2020 میں Rights of Persons with Disability Act منظور کیا گیا، پنجاب نے 2021 میں Empowerment of Persons with Disabilities Act نافذ کیا، سندھ نے 2018 میں Sindh Empowerment of Persons with Disabilities Act پاس کیا، خیبرپختونخوا نے 2020 میں Khyber Pakhtunkhwa Empowerment of Persons with Disabilities Act منظور کیا، اور بلوچستان نے 2017 میں Persons with Disabilities Act نافذ کیا۔
ان تمام قوانین نے خصوصی افراد کے حقوق، روزگار، تعلیم اور رسائی کے حق کو قانونی تحفظ دیا، مگر ان میں یکسانیت اور نفاذ کا فقدان سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق سندھ کے بیشتر سرکاری دفاتر اب تک خصوصی افراد کے لیے قابلِ رسائی نہیں بنائے گئے، حالانکہ قانون واضح طور پر ہر سرکاری عمارت میں ریمپ، لفٹ اور ٹوائلٹ کی دستیابی لازمی قرار دیتا ہے۔
خیبرپختونخوا میں چار فیصد ملازمت کوٹہ تو مقرر کیا گیا مگر عملدرآمد کا تناسب 20 فیصد سے بھی کم بتایا جاتا ہے۔ بلوچستان میں تو نہ کوئی Disability Council بنی اور نہ ہی نفاذ کے لیے بجٹ مختص کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پنجاب میں صورت حال نسبتاً بہتر ضرور ہے مگر تین فیصد کوٹے میں سے 70 فیصد آسامیاں اب بھی خالی ہیں۔ اسلام آباد میں بھی Accessibility کے معیارات سرکاری دفاتر میں سرے سے ہیں ہی نہیں یا اگر ہیں تو قابلِ استعمال نہیں ہیں۔
دی نیوز کی دسمبر 2022 کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر کے ایئر پورٹس اور ریلوے سٹیشنز میں خصوصی افراد کے لیے بنیادی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کئی بڑے ہوائی اڈوں پر مخصوص کاؤنٹرز تو بنائے گئے مگر انہیں عام مسافروں کے استعمال کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
لاہور، اسلام آباد اور کراچی ایئرپورٹس پر wheelchair assistance سروس صرف کاغذوں میں موجود ہے۔ عملی طور پر زیادہ تر خصوصی مسافر خود یا خاندان کے افراد کی مدد سے سفر کرتے ہیں۔
روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کی ہی مارچ 2023 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خصوصی افراد کے لیے مختص سرکاری کوٹے پر عملدرآمد صرف 10 فیصد سے بھی کم ہے۔
بیشتر سرکاری محکموں اور نجی اداروں نے نہ صرف کوٹے کو پورا نہیں کیا بلکہ ان عہدوں کے لیے کوئی واضح اشتہارات یا بھرتی مہم بھی نہیں چلائی۔
اسی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ضلعی روزگار و بحالی کمیٹیاں غیر فعال ہیں اور صوبائی محکموں کے پاس ان کے کام کی مانیٹرنگ کا کوئی ڈیٹا موجود نہیں۔
تعلیم کے شعبے میں بھی صورت حال مختلف نہیں۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے 80 فیصد سے زائد سکولوں میں ریمپس، بریل کتب یا خصوصی اساتذہ کا انتظام نہیں۔
اسلام آباد میں وفاقی حکومت کے ماتحت کئی عمارتیں wheelchair-friendly نہیں۔ یہاں تک کہ انسانی حقوق کی وزارت کی اپنی عمارت میں بھی خصوصی افراد کے لیے مکمل سہولتیں موجود نہیں۔
ان تمام حقائق سے واضح ہے کہ پاکستان کو ایک مرکزی نگران ادارے کی ضرورت ہے جو ان تمام قوانین اور پالیسیوں کے نفاذ کو یقینی بنائے۔
اس مقصد کے لیے ایک جامع اور خودمختار ادارہ، National Accessibility and Inclusion Authority (قومی شمولیتی و رسائی اتھارٹی)، قائم کیا جانا چاہیے جو براہِ راست پارلیمان یا وزیرِ اعظم کے ماتحت ہو اور جس کے پاس تمام صوبوں میں یکساں معیارات نافذ کرنے کے اختیارات ہوں۔
یہ اتھارٹی قومی سطح پر ایک National Accessibility Code تشکیل دے، جس میں عمارتوں، سڑکوں، ٹرانسپورٹ، ویب سائٹس، سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں کے لیے عالمی معیار کے اصول طے کیے جائیں۔
ہر سال تمام صوبوں اور اداروں کا Accessibility Audit کیا جائے اور نتائج عوام کے سامنے پیش کیے جائیں۔ اتھارٹی کے فرائض میں خصوصی افراد کی مردم شماری، ڈیٹا بیس کی تیاری، ملازمت کے کوٹے کی نگرانی، ڈیجیٹل رسائی کے منصوبے اور شکایات کے ازالے کے لیے آن لائن پورٹل کا قیام شامل ہونا چاہیے۔
خلاف ورزی کرنے والے اداروں پر جرمانے عائد کیے جائیں اور سالانہ رپورٹ پارلیمان میں پیش کی جائے تاکہ احتساب اور شفافیت یقینی ہو۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں تقریباً ایک کروڑ خصوصی افراد موجود ہیں، یہ اتھارٹی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔
موجودہ نظام میں مسئلہ یہ ہے کہ ہر صوبہ اپنی پالیسی خود بناتا ہے مگر قومی ہم آہنگی اور معیاری ڈھانچہ نہیں۔ یہی عدم یکسانیت خصوصی افراد کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر اتھارٹی کے قیام میں کوئی سقم ہو تو انفارمیشن کمیشن آف پاکستان کی طرز پر کمیشن فار سپشل پرسنز پاکستان کا قیام بھی عمل میں لایا جا سکتا ہے۔
یہ معاملہ محض قانون یا پالیسی کا نہیں بلکہ انسانی وقار کا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جو اپنے خصوصی شہریوں کے لیے آسانیاں پیدا نہیں کر سکتا، دراصل اپنی اجتماعی کمزوری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
ان افراد کو مساوی مواقع سے زیادہ انصاف پر مبنی سہولتوں کی ضرورت ہے، کیونکہ مساوات سب کو ایک ہی راستہ دیتی ہے مگر انصاف ہر فرد کے لیے وہ راستہ بناتا ہے جو اس کے چلنے کے قابل ہو۔
پاکستان میں اگر حکومت واقعی شمولیتی معاشرہ بنانا چاہتی ہے تو اسے خیرات پر مبنی نقطۂ نظر سے نکل کر حقوق پر مبنی نقطۂ نظر اختیار کرنا ہوگا۔ یعنی خصوصی افراد کی فلاح کو خیرات نہیں بلکہ ان کا بنیادی حق سمجھا جائے۔
اس کے لیے نہ صرف قانون بلکہ ادارہ جاتی اصلاحات، بجٹ میں علیحدہ فنڈز، اور عوامی شعور بیداری کی ضرورت ہے۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کو بھی اس ضمن میں ذمہ داری ادا کرنی ہوگی۔
خصوصی افراد کی کہانیاں ہمدردی کے بجائے کامیابی، خودمختاری اور قیادت کے زاویے سے پیش کی جائیں۔ جب تک معاشرہ ان افراد کو برابر کے شہری نہیں سمجھے گا، کوئی قانون ان کی وقعت نہیں بڑھا سکتا۔
کیونکہ کسی قوم کی اصل ترقی کا پیمانہ یہ نہیں کہ وہ اپنے طاقت ور طبقے کو کتنا آگے لے جاتی ہے، بلکہ یہ ہے کہ وہ اپنے سب سے کمزور شہری کے لیے کتنی آسانی پیدا کرتی ہے اور یہی وہ امتحان ہے جس میں کامیابی ایک باوقار، شمولیتی اور منصفانہ پاکستان کی بنیاد رکھے گی۔
(ڈاکٹر راجہ قیصراحمد قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے سکول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں)
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔