وزیر اعلیٰ پنجاب نے صوبے کے خصوصی افراد کے لیے ’ہمت کارڈ‘ کا اعلان کیا ہے جس کے تحت وہ معذور افراد جو کوئی کام کرنے کے قابل نہیں ہیں انہیں ہر تین ماہ بعد 10 ہزار پانچ سو روپے کی رقم حکومت کی جانب سے ادا کی جائے گی۔
احسان احمد ہارون 30 برس کے ہیں اور یہ پٹھوں کے مرض کا شکار ہیں۔ ان کے دونوں ہاتھ کام نہیں کرتے اور گھٹنوں سے نیچے ان کی ٹانگیں نہیں ہیں اور یہ وہیل چیئر استعمال کرتے ہیں۔
احسان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا معذوری سرٹفیکیٹ آج سے آٹھ برس پہلے بنا تھا اور ان کے سرٹفیکیٹ پر بھی یہ لکھا ہے کہ یہ کوئی کام کاج نہیں کر سکتے۔
پنجاب حکومت کے ہمت کارڈ کے لیے کیے جانے والے رجسٹریشن کے عمل سے احسان گزر چکے ہیں اور اب یہ بطور ’ناٹ فٹ ٹو ورک‘ حکومت پنجاب کے ریکارڈ میں آچکے ہیں اور ہمت کارڈ حاصل کرنے کے اہل ہیں۔
احسان نے بتایا کہ انہیں کال آئی کہ وہ اپنی رجسٹریشن کروائیں اور وہ رجسٹریشن کے لیے جوہر ٹاؤن میں سوشل ویلفیئرکے دفتر جا کر خود کو ہمت کارڈ کے لیے رجسٹر کروا کر آئے۔
احسان نے بتایا کہ جب وہ وہاں گئے تو انہیں پہلے بتایا گیا کہ انہیں مہینے کے سات یا ساڑھے سات ہزار روپے حکومت کی جانب سے دیے جائیں گے۔
اس کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ 10 ہزار ہر مہینے دیا جائے گا لیکن پھر معلوم ہوا کہ 10 ہزار پانچ سو روپے ہر تین مہینے کے بعد دیا جائے گا۔
احسان کا کہنا تھا: ’پہلے بھی ہر حکومت میں سپیشل پرسنز کے لیے بہت سی سہولیات کے اعلانات کیے جاتے رہے لیکن کچھ نہیں ملا اب مریم نواز نے ہمت کارڈ کا اعلان کیا ہے لیکن اگر یہ بات بھی ہوا میں کی گئی ہے تو یہ بتائیں کہ ہمارا کیا قصور ہے؟‘
انہوں نے اپنا بیماری کا خرچہ بتاتے ہوئے کہا: ’یہ رقم بہت کم ہے میری صرف سردیوں میں ایک مہینے کی ادویات جن میں اینٹی بائیٹک، گاز پٹیاں، درد کی دوا اور دیگر ادویات شامل ہیں 15 سے 18 ہزار روپے کی ہیں۔
’جب سردی ختم ہوتی ہے تو میری طاقت کی ادویات، درد کی دوا، فزیو تھراپی چلتی ہے جس کا خرچہ ماہانہ آٹھ سے 12 ہزار روپے ہے۔ حکومت جو دے گی وہ میرے والدین کا مالی بوجھ کم نہیں کرے گا۔'
ان کا کہنا تھا کہ یہ رقم اتنی ہونی چاہیے کہ ہم جیسے لوگ جو کوئی کام نہیں کر سکتے وہ کم از کم اپنے والدین یا گھر والوں پر بوجھ نہ بنیں۔
دوسری جانب انڈپینڈنٹ اردو نے سپیشل پرسن سحر سعید سے بات کی۔
سحرکے پاس گذشتہ 10 برس سے ’ڈس ابیلٹی سرٹفیکیٹ‘ ہے، اس بنیاد پر وہ اس وقت ایک کثیر القومی ادارے میں ملازمت کر رہی ہیں۔
سحر نے لاہور کے سروسسز ہسپتال سے یہ سرٹیفکیٹ بنوایا تھا اور اس کے لیے انہیں خود ہسپتال جانا پڑا جہاں ان کا انٹرویو ہوا اور پورا چیک اپ جس کے بعد وہاں کے ڈاکٹر نے انہیں یہ سند فراہم کی لیکن سحر ابھی بطور ڈس ایبل پرسن حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے سحر نے بتایا کہ ’میں بھی ہمت کارڈ بنوانا چاہتی ہوں اس لیے رجسٹریشن کے لیے میں نے سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ میں متعلقہ افسر سے بات کی جنہوں نے مجھے بتایا کہ رجسٹریشن کے لیے انہیں خود فون آئے گا کیونکہ وہ ڈس ابیلٹی سرٹفیکیٹ بنوانے کی وجہ سے حکومت کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔‘
سحر کو ہمت کارڈ شاید نہ ملے کیونکہ یہ کارڈ ان لوگوں کے لیے ہے جو ’ناٹ فٹ ٹو ورک‘ یا کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
ہمت کارڈ کیا ہے؟
چند روز قبل وزیر اعلیٰ پنجاب نے صوبے کے خصوصی افراد کے لیے ہمت کارڈ کے اجرا کا اعلان کیا جس کے لیے جون میں رجسٹریشن کے عمل کا آغاز کر دیا گیا تھا۔
گذشتہ ہفتے پنجاب میں موجود خصوصی افراد کی سہولت کے لیے ہمت کارڈز کا پروگرام شروع کیا گیا ہے جس کے تحت محکمہ سوشل ویلفیئر پنجاب اور بینک آف پنجاب کے درمیان ایک مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط کیے گئے۔
اس یادداشت کے تحت بینک آف پنجاب صوبے میں 65 ہزار خصوصی افراد کو اے ٹی ایم کارڈ جاری کرے گا جسے ہمت کارڈ کا نام دیا گیا ہے۔
صوبے بھر میں خصوصی افراد کو اس ہمت کارڈ کے ذریعے ہر تین ماہ کے بعد ساڑھے 10 ہزار روپے رقم ادا کی جائے گی۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ہمت کارڈ کے ذریعے ادائیگی کو 15 ستمبر سے یقینی بنانے کی ہدایت بھی جاری کی ہے۔
وزیر برائے سوشل ویلفیئر پنجاب سہیل شوکت بٹ نے ہمت کارڈ کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا، ’ہمت کارڈ کے لیے ہم ہر تحصیل لیول پر رجسٹریشن کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس پنجاب بھر میں تین لاکھ 84 ہزار کے قریب ڈس ایبلڈ پرسنز کا ڈیٹا موجود ہے۔ اس میں ہم نے دو کیٹگریز بنائی ہیں جن میں ایک کیٹگری ہے فٹ ٹو ورک اور دوسری ہے ناٹ فٹ ٹو ورک۔‘
وزیر برائے سوشل ویلفیئر پنجاب نے کہا کہ ’ہمت کارڈ ناٹ فٹ ٹو ورک کیٹگری کے خصوصی افراد کو دیا جائے گا یعنی وہ افراد جو بستر پر ہیں اور ان کی جسمانی حالت ایسی ہے کہ وہ کام نہیں کر سکتے۔‘
سہیل شوکت بٹ کے مطابق خصوصی افراد کو سرٹفیکیٹ دینے کے لیے ہسپتالوں میں بورڈز بنے ہوئے ہیں جن میں ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی (ٹیوٹا پنجاب) کا ایک رکن، لیبر ڈپارٹمنٹ، سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ، ایک متعلقہ ڈاکٹر، اور ہسپتال کا میڈیکل سپرانٹنڈنٹ شامل ہوتے ہیں۔
سرٹفیکیٹ میں لکھا ہوتا ہے کہ کوئی شخص کام کرنے کے قابل ہے یا نہیں اور اسی بنیاد پر اس شخص کا شناختی کارڈ بنتا ہے۔۔
ہمت کارڈ حاصل کرنے کا طریقہ
سہیل شوکت بٹ نے بتایا: ’ہمارے ڈیٹا کے مطابق پنجاب میں تین لاکھ 84 ہزار سرٹفیکیٹ جاری کیے گئے ہیں جبکہ اس میں ’ناٹ فٹ ٹو ورک‘ کے زمرے میں تقریباً ایک لاکھ 70 ہزار افراد شامل ہیں۔
’ان کی رجسٹریشن کے لیے ہم نے 176 کے قریب اسسٹنٹ ڈائریکٹرز ہر تحصیل لیول پر تعینات کیے ہیں جو گھر گھر جا کر معذور افراد کی جسمانی حالت کی ویری فکیش یا تصدیق کریں گے۔‘
ان کے مطابق معذور افراد کی رجسٹریشن کا کام پنجاب میں پہلی بار کیا جارہا ہے اس سے پہلے صرف معذوری سرٹفیکیٹ دیا جاتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ سپیشل پرسنز کے بائیو میٹریکس بھی کیے جائیں گے اور پنجاب آئی ٹی بورڈ کی مدد سے ایک موبائل ایپلی کیشن بھی بنائی جہاں یہ ساری معلومات سٹور کی جائے گی اس کے ساتھ ساتھ ہمت کارڈ حاصل کرنے کے لیے ایک ہیلپ لائن 1312 چھ جون سے 2024 سے ہفتے کے چھ روز صبح آٹھ سے شام چار بجے تک کام کر رہی ہے۔
ان کے مطابق: ’ہمت کارڈ حاصل کرنے کے لیے وہ شخص اہل ہوگا جو پنجاب کا رہائشی ہو، ان کے پاس معذوری سرٹفیکیٹ ہو، کام کرنے کے قابل نہ ہو، ان کا پی ایم ٹی سکور (سطح غربت کا سکور) 3200 ہو، سرکاری ملازمت نہ کرتے ہوں، اس سے پہلے بے نظیر انکم سپورٹ یا پنجاب BISP یا پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی PSPA سے مالی امداد نہ لیتے ہوں۔‘
وزیر برائے سوشل ویلفیئر پنجاب سہیل شوکت بٹ نے بتایا کہ ’حالیہ آںے والے بجٹ میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے ہماری اس سکیم کی منظوری دی تھی اور ہمت کارڈ کے لیے دو ارب دیے تھے جس کے تحت ہم ان افراد کو ہر تین ماہ بعد ساڑھے 10 ہزار روپے ادا کریں گے۔
’ہمیں مزید بجٹ بھی چاہیے تھا جو وزیر اعلیٰ نے منظور کر دیا اب ہم پہلے مرحلے میں پنجاب میں 65 ہزار خصوصی افراد کو ہمت کارڈ جاری کریں گے اور اب تک 32 ہزار سے زائد معذور افراد کی فزیکل ویریفکیشن کی جاچکی ہے جبکہ باقی افراد کی ویری ٓفکیشن اگلے دو ہفتے میں مکمل ہو جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’32 ہزار افراد کا ڈیٹا ہم پنجاب بینک کو مہیا کر چکے ہیں اب بینک ان لوگوں کا اکاؤنٹ کھول کر انہیں ایک اے ٹی ایم کارڈ جاری کریں گے۔‘
دوسری جانب سحر سعید کا کہنا ہے کہ ’مجھے یہ معلوم ہے کہ ہم جیسے افراد کے لیے حکومتی سطح پر کوئی خاص کام نہیں کیا گیا سوائے ایک ڈس ایبیلٹی سرٹفیکیٹ کے۔ میں نے اپنی زندگی میں یہ ہی دیکھا ہے کہ ہم جیسے لوگوں کے لیے نوکریوں یا تعلیمی میدان میں صرف ایک کوٹہ ہے جس پر کچھ لوگوں کو سہولت مل جاتی تھی کچھ کو وہ بھی نہیں ملتی تھی۔‘
سحر کے مطابق انہوں نے پہلی بار دیکھا ہے کہ خصوصی افراد کے لیے کچھ کیا جارہا ہے لیکن سحر کے کچھ سوال بھی تھے، جیسے ’جب موجودہ حکومت ختم ہو گی تو کیا آنے والی حکومت اس کارڈ کو بند تو نہیں کر دے گی؟‘
انہوں نے پوچھا کہ کیا یہ کارڈ واقعی میں مستحق افراد کو ملے گا یا اس میں بھی کچھ عناصر اپنا ذاتی فائدہ حاصل کریں گے، اس کارڈ کی شفافیت کو کیسے یقینی بنایا جائے گا؟
’کیا فٹ ٹو ورک معذور افراد کوئی سرکاری سطح پر نوکریاں نہیں دی جاسکتیں تاکہ وہ خود کفیل ہو سکیں؟‘
سحر کے مطابق اگر سرکاری سطح پر ایسی کوئی نوکری آتی ہے تو وہ اسے حاصل کرنے کے لیے ضرور کوشش کریں گی۔
ان سب سوالوں کے جواب ہم نے وزیر برائے سوشل ویلفئیر سہیل شوکت بٹ سے بھی پوچھے۔
سہیل شوکت بٹ کا کہنا تھا کہ ’ویلفیئر کا یہ کام کسی حکومت نے پہلے نہیں کیا اور جو قوم کے لیے اچھے اقدامات کیے جاتے ہیں وہ کبھی بند نہیں ہوتے۔ ایسے کام ملک کی نیک نامی ہوتے ہیں اور یہ آئندہ آنے والے وقتوں میں آگے بڑھے گا یہ کارڈ بند نہیں ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کارڈ کی سہولت ان لوگوں کو مل جائے جو مستحق نہیں ایسا ممکن نہیں ہو سکتا۔
’پورا ایک بورڈ ڈس ابیلٹی سرٹفکیٹ جاری کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جسمانی حالت کی تصدیق ایک 17ویں گریڈ کا افسر چار لوگوں کی ٹیم کے ساتھ جا کر کرتا ہے اور اس کا ریکارڈ بنے گا۔ اس لیے شفافیت پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ جو فٹ ٹو ورک ہیں ان کے لیے بھی ہم کام کر رہے ہیں ہم نے کچھ رولز بنا دیے ہیں وہ ابھی لا ڈیپارٹمنٹ میں ہیں وہاں سے وہ کابینہ میں جائیں گے وہاں سے منظوری کے بعد وہ پنجاب اسمبلی میں منظوری کے لیے آئیں گے۔
ہم سرکاری اور نجی اداروں میں ان کو ایڈجسٹ کریں گے یعنی جہاں 33 لوگ کام کر رہے ہوں گے وہاں ایک معذور فرد کا حق بھی بنتا ہے ہم نے حکومتی اور نجی سطح پر تین فیصد کوٹہ مختص کیا ہے۔
ان کے مطابق فرض کریں اگر کسی نجی فوڈ چین کے پاس پورے پنجاب میں تین ہزار افراد کام کر رہے ہیں تو انہیں پورے پنجاب میں تین فیصد کوٹہ فٹ ٹو ورک معذور افراد کو دینا پڑے گا۔
ان کے کا کہنا تھا کہ فٹ ٹو ورک معذور افراد کے لیے تجویز کردہ تین فیصد کوٹے کی منظوری جلد از جلد ہو جائے گی جس کے بعد ہم اس پر کام شروع کر دیں گے۔
’جو معذور افراد پڑھنا چاہتے ہیں ان کے لیے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں بھی تین فیصد کوٹہ رکھنے کی تجویز دی ہوئی ہے۔‘