پاکستان میں ٹرانس جینڈرز کے لیے صنفی ہم آہنگی کی محفوظ سرجری مشکل مرحلہ

قانونی طور پر صنفی ہم آہنگی کی سرجری کرنے والے ڈاکٹر مدثر محبوب کہتے ہیں کہ ’صنفی تبدیلی اب بھی متنازع ہے۔ ڈاکٹرز ڈرتے ہیں کہ ان کا فیصلہ جانچا جائے گا۔‘

پاکستان میں، جہاں حال ہی میں صنفی ہم آہنگی کی سرجری (gender affirmation surgery) کو قانونی حیثیت دی گئی ہے، بنٹی ان چند ٹرانس خواتین میں شامل ہیں، جو یہ عمل محفوظ طریقے سے کروانے کی استطاعت رکھتی تھیں۔

اگرچہ 2018 میں طبی طور پر صنف تبدیل کرنے کا حق حاصل کر لیا گیا تھا، تاہم پاکستان میں تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی کمی، زیادہ اخراجات اور سماجی پابندیوں کے باعث بیشتر ٹرانس جینڈر آج بھی غیر تجربہ کار سرجنز سے رجوع کرنے پر مجبور ہیں۔

بنٹی، جنہوں نے جنس تبدیلی کے بعد اپنا خاندانی نام استعمال کرنا چھوڑ دیا، نے بتایا کہ وہ لاہور کی واحد خاتون ڈاکٹر کے پاس گئیں، جو ٹرانس خواتین کے لیے چھاتی بڑھانے کی سرجری کرتی ہیں۔

اگرچہ یہ عمل کامیاب رہا، لیکن بنٹی کے بقول یہ ایک ’خفیہ‘ طریقے سے انجام دیا گیا اور اس کی لاگت عام خواتین کی نسبت دُگنی تھی۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’مجھے صرف دو گھنٹے کے لیے ہسپتال میں رکھا گیا، اس کے بعد مجھے زبردستی باہر بھیج دیا گیا تاکہ کسی کو علم نہ ہو سکے۔‘

انہوں نے بتایا: ’میں شدید تکلیف میں تھی۔‘

یہ بنٹی کے لیے ایک اور ذلت آمیز مرحلہ تھا، جن کا کہنا تھا کہ ان کی صنفی شناخت کے باعث انہیں ان کے خاندان نے چھوڑ دیا اور پھر جس نوکری سے وہ ہسپتال کے اخراجات پورے کر رہی تھیں، اس سے بھی انہیں نکال دیا گیا، جس کے بعد وہ جسم فروشی پر مجبور ہو گئیں۔

انہوں نے کہا کہ ہسپتال نہیں چاہتا تھا کہ ان کی سرجری کی خبر ڈاکٹروں یا مریضوں تک پہنچے، جو اس عمل کو ناپسند کرتے ہیں۔

قانونی طور پر صنفی ہم آہنگی کی سرجری کرنے والے ڈاکٹر مدثر محبوب نے کہا: ’صنفی تبدیلی اب بھی متنازع ہے۔ ڈاکٹرز ڈرتے ہیں کہ ان کا فیصلہ جانچا جائے گا۔‘

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنے قدامت پسند صوبے خیبرپختونخوا میں کسی قسم کے تنازعے سے بچنے کے لیے دارالحکومت اسلام آباد میں کام کرنے کا فیصلہ کیا۔

ڈاکٹر مدثر محبوب کا کہنا تھا کہ وہ ان مریضوں کا بھی علاج کرتے ہیں جنہیں گلی محلوں کے غیر تربیت یافتہ ’ڈاکٹروں‘ نے نقصان پہنچایا ہو۔

انہوں نے بتایا: ’ایک مریض، جسے ایک جعلی معالج نے خصی کر دیا تھا، میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا کہ میں اس کی حالت بہتر کر دوں۔‘

’خدا کا خوف کریں‘

ریم شریف، جو خواجہ سرا افراد کے ایک اجتماعی گھرانے ’ڈیرہ‘ میں رہتی ہیں، نے بتایا کہ پاکستان میں صرف دو ڈاکٹر ایسے ہیں جو کھلے عام قانونی اور محفوظ صنفی ہم آہنگی کا عمل فراہم کرتے ہیں۔

ان کے مطابق سرکاری ہسپتال اکثر مذہب کا حوالہ دے کر ایسے مریضوں کو واپس لوٹا دیتے ہیں۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’وہ کہتے ہیں، خدا کا خوف کریں، آپ یہ کیسے کر سکتے ہیں؟‘

بقول ریم: ’قانون کے مطابق صنفی تبدیلی جائز ہے، لیکن عملی طور پر نہیں اور معاشرہ بھی اسے قبول نہیں کرتا۔‘

پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کی درست تعداد سے متعلق کوئی قابلِ اعتماد اعداد و شمار موجود نہیں۔

یہاں اس تیسری جنس کو ’خواجہ سرا‘ کہا جاتا ہے، جو صدیوں سے شادیوں اور پیدائش کے موقعے پر دعائیں دیتے نظر آتے ہیں۔

2018 کے قانون کا مقصد ٹرانس جینڈر افراد کے سیاسی و سماجی حقوق کو مضبوط بنانا تھا کیونکہ معاشرے میں ان کے خلاف بڑھتی ہوئی تشدد کی لہر دیکھی جا رہی تھی۔

اگرچہ اس قانون کو عالمی سطح پر سراہا گیا، مگر ملک کے دائیں بازو کے مذہبی گروہوں نے اس کی مخالفت کی اور یہ غلط تاثر پھیلایا کہ یہ قانون ملک میں ’ہم جنس شادیوں‘ کو جائز بنا دے گا، جہاں ہم جنس پرستی غیر قانونی ہے۔

یہ قانون اب بھی نافذ ہے، مگر اسے عدالتوں میں چیلنج کیا جا رہا ہے اور یہ جانچا جا رہا ہے کہ آیا یہ اسلامی قوانین سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماہرِ نفسیات ثنا یاسر کہتی ہیں کہ جب سے یہ چیلنجز شروع ہوئے ہیں، گذشتہ تین برسوں میں میرے پاس سب سے زیادہ ٹرانس مریض ’مشورے اور فالو اَپ‘ کے لیے آئے ہیں کیونکہ وہ قانونی تبدیلی کے ممکنہ اثرات سے فکرمند ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق جن خواجہ سرا افراد کو اپنی شناخت کے مطابق علاج اور مدد ملتی ہے، ان کے معیارِ زندگی میں بہتری آتی ہے، جبکہ جنہیں مدد نہیں ملتی، وہ ذہنی دباؤ اور خودکشی کے خیالات جیسے مسائل سے دوچار رہتے ہیں۔

ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی کارکن اور محقق محلب شیخ نے کہا کہ پاکستان کے مذہبی و ثقافتی اصولوں کے مطابق صنفی ہم آہنگی کی سرجری ’ایک گناہ‘ سمجھی جاتی ہے، چاہے وہ کسی شخص کے جسم کو اس کی شناخت کے مطابق ہی کیوں نہ کر دے۔

صنفی ہم آہنگی کی سرجری کچھ دیگر مسلم ممالک مثلاً مصر میں بھی دستیاب ہے، جہاں یہ قانونی طور پر صرف ڈاکٹروں اور مذہبی حکام کی منظوری سے کی جا سکتی ہے، لیکن عملی طور پر اس تک رسائی انتہائی محدود ہے۔

ایران میں یہ عمل قانونی اور حکومتی امداد یافتہ ہے، تاہم کارکنوں کے مطابق وہاں بھی ٹرانس افراد کو روزمرہ کی زندگی میں امتیاز اور تعصب کا سامنا رہتا ہے۔

تشدد، خطرات اور فخر

ٹرانس جینڈر کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، اگرچہ درست اعداد و شمار دستیاب نہیں کیونکہ زیادہ تر واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔

پاکستانی تنظیم ’جینڈر انٹریکٹو الائنس‘ کے مطابق 2022 سے اب تک 56 (ٹرانس جینڈر) افراد قتل ہو چکے ہیں۔

ان میں وہ تین ٹرانس خواتین بھی شامل ہیں جن کی گولیوں سے چھلنی لاشیں گذشتہ ماہ کراچی میں ایک سڑک کنارے ملی تھیں۔

اسلام آباد کے 29 سالہ ٹرانس مرد زارون اسحاق نے اے ایف پی کو بتایا: ’میرے بھائی نے مجھے قتل کی دھمکی دی اور کہا کہ یا تو اسے گھر سے نکال دو، یا وہ مجھے نقصان پہنچائیں گے۔ انہوں نے مجھے اپنی عزت اور شہرت خراب کرنے کا الزام دیا۔‘

انہوں نے کہا کہ تمام مشکلات کے باوجود ’اپنی (جنس) تبدیلی کے بعد کی یہ خوشی سب سے قیمتی چیز ہے۔

’میرا اصل وجود اب سامنے آ چکا ہے اور میں اپنی زندگی سے بہت خوش ہوں۔‘

ہارون، جن کا نام شناخت کے تحفظ کے لیے تبدیل کیا گیا ہے، نے بتایا کہ جنس تبدیلی کے بعد ’مجھے آخرکار اپنے آپ کے ساتھ سکون محسوس ہوتا ہے۔‘

خاندان اور بعض ڈاکٹروں کے انکار کے باوجود انہوں نے چھاتی ہٹانے سمیت دیگر سرجریاں کروائی ہیں۔

انہوں نے کہا: ’اگر آپ میں ہمت ہے، اگر آپ نے یہ قدم اٹھا لیا اور فیصلہ کر لیا، تو پھر آپ پیچھے نہیں ہٹتے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان