’چائے والا‘ ارشد خان کی پاکستانی شہریت اور میڈیا کی ’طاقت‘

ارشد خان کے مینیجر نے بتایا کہ ان کی پاکستانی شہریت جھوٹی ہونے کی خبر ایک رپورٹر نے چلوائی تھی۔

ارشد چائے والا 22 مارچ 2024 کو اپنے چائے کے ہوٹل کی تشہیر کر رہے ہیں (چائے والا انسٹا گرام)

نیلی آنکھوں اور خوبصورت خدوخال کی وجہ سے راتوں رات شہرت پانے والے ارشد خان المعروف ’چائے والا‘ کو ایک عدالتی پٹیشن کے بعد نادرا ویریفکیشن بورڈ نے پاکستانی شہری قرار دیا، جس کے نتیجے میں ان کا شناختی کارڈ بحال کر دیا گیا ہے۔

یہ بات پیر کے روز ان کے وکیل عمر اعجاز گیلانی نے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ کو بتائی۔ عدالت نے نادرا سے لا آفیسر کے ذریعے تصدیق کروائی اور یوں پٹیشن کو نمٹا دیا گیا۔ ارشد خان اب باقاعدہ طور پر پاکستانی شہری ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ارشد خان کا شناختی کارڈ بلاک کیوں کیا گیا تھا؟

ان کے وکیل نے اپریل میں دوران سماعت عدالت کو بتایا کہ ’ایک نیوز چینل پر نشر کی گئی جھوٹی افواہ کی بنیاد پر ان کے کلائنٹ کا پورا مستقبل، کیریئر اور کاروبار داؤ پر لگ گیا ہے۔‘

وکیل کے مطابق ارشد خان کے مینیجر نے ایک معروف نیوز چینل کے رپورٹر کو بغیر معاوضے کے انٹرویو دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس انکار کے بعد ایک خبر شائع ہوئی اور پھر ارشد خان کا شناختی کارڈ بھی بلاک کر دیا گیا، جس پر وہ وکیل عمر اعجاز گیلانی کے ذریعے عدالت سے رجوع کرنے پر مجبور ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یوں بظاہر ایک انکار نے ارشد خان چائے والا کو طویل ذہنی اذیت اور مالی نقصان سے دوچار کر دیا۔ کوئی 15 سو کلومیٹر دور کراچی میں برسوں پہلے ایک ایسا ہی انکار ایک پولیس افسر کا ذہنی سکون چھین چکا تھا۔

کراچی آپریشن شروع ہونے سے کچھ عرصہ قبل ایک ٹی وی چینل کے رپورٹر نے ضلع ملیر کے ایک تھانے کے ایس ایچ او سے کسی خبر کے سلسلے میں رابطہ کیا، مگر موصوف نے سخت لہجے میں بات کی۔ رپورٹر نے بدلے میں انہیں ’سبق سکھانے‘ کا فیصلہ کیا۔ رات کے تقریباً 12 بجے کے لگ بھگ اس نے اپنے چینل کو ٹکرز بھیج دیے کہ ’فلاں ایس ایچ او نے بارود سے بھری سوزوکی پکڑ کر کراچی کو تباہی سے بچا لیا۔‘ پھر فون بند کر کے سو گیا، مگر ایس ایچ او کی نیند اور ہوش دونوں اڑا دیے۔

اگلے چند گھنٹوں میں ٹی وی رپورٹروں کی کالوں کا تانتا بندھ گیا۔ انہیں ہر دو منٹ بعد کسی نہ کسی پولیس یا انٹیلی جنس افسر کو وضاحت بھی دینا پڑتی۔ چند دنوں میں ایس ایچ او صاحب نیند کی گولیوں کے محتاج ہو گئے۔

ایسے سینکڑوں واقعات ہوں گے جس میں میڈیا نے کسی کو انکار پر سبق سکھایا ہو گا۔

دوسروں کو سبق سکھانے والا میڈیا خود بھی اب سبق پڑھ رہا ہوتا ہے، کیونکہ اس پر ایک خود ایک طاقتور قوت کا حکم چلتا ہے۔

کہاوت ہے کہ طاقت کرپٹ بناتی ہے اور مطلق العنان طاقت مطلق العنان کرپٹ بناتی ہے۔ معاشرے کو کرپشن سے بچانے کے لیے چیکس اینڈ بیلنسز کا نظام ہونا ضروری ہے، میڈیا میں بھی اور اداروں میں بھی، ورنہ جس کے پاس اختیار ہو گا، وہ کبھی نہ کبھی اس کا غلط استعمال ضرور کرے گا۔

نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ