میں اور میرے والدین پاکستانی شہری ہیں: ارشد خان چائے والا

ارشد خان کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ نادرا حکام کی جانب سے 1978 سے قبل کے رہائشی شواہد مانگے جا رہے جبکہ نادرا اور پاسپورٹ حکام نے شہریت کے شواہد پیش نہ کرنے پر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کر دیے ہیں۔

ارشد خان اسلام آباد کے اتوار بازار میں ایک فوٹوگرافر کی بنائی فوٹو کے بعد ’چائے والا‘ کے نام سے مشہور ہوئے تھے (فائل فوٹوز/ سوشل میڈیا/ انسٹاگرام)

سوشل میڈیا پر اچانک سے ایک تصویر کے ذریعے ’چائے والا‘ کے نام سے شہرت پانے والے ارشد خان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ خود اور ان کا پورا خاندان پاکستانی ہیں اور کسی غلط فہمی کے تحت ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیے گئے ہیں۔

پاکستان سے افغان پناہ گزینوں کو واپس ان کے ملک بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے اور اسی دوران ارشد خان اور ان کے خاندان والوں کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیے گئے ہیں، جس پر ارشد خان نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔

ارشد خان نے منگل کو انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’چائے والا پاکستان سے پیار کرتا ہے اور پاکستانی چائے والا سے پیار کرتے ہیں۔ مجھے پوری امید ہے کہ یہ مسئلہ جلد حل ہو جائے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میں اور میرے والدین پاکستان کے شہری ہیں۔ ہمارے پاس ساری زندگی پاکستانی شناختی کارڈ رہے ہیں۔ نادرا نے کسی غلط فہمی کی وجہ سے میرا شناختی کارڈ بلاک کر دیا ہے۔

’میرے وکیل ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مجھے امید ہے میرا کیس جلد ختم ہو جائے گا۔‘

عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں موقف

ارشد خان کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ نادرا حکام کی جانب سے 1978 سے قبل کے رہائشی شواہد مانگے جا رہے جبکہ نادرا اور پاسپورٹ حکام نے شہریت کے شواہد پیش نہ کرنے پر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کر دیے ہیں۔

عدالت میں ہونے والی پہلی سماعت میں کیا ہوا؟

ارشد خان کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی برانچ 17 اپریل کو ہونے والی پہلی سماعت میں جسٹس جواد حسن کے حکم پر نادرا کی طرف سے جمع کروائی گئی رپورٹ کے مطابق ’ارشد خان پاکستانی نہیں، افغان شہری ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نادرا رپورٹ کے مطابق ’ارشد خان کو عدالت سے رجوع کرنے کے بجائے ریجنل ویریفیکشن بورڈ کے روبرو پیش ہوکر 1979 سے قبل کے دستاویرات پیش کرنے تھے یا وفاقی حکومت کے نوٹیفکیشن 19 اپریل 2017 کی روشنی میں ضلعی کمیٹی اسلام آباد میں پیش ہونا تھا یا پھر وفاقی حکومت کو نادرا آرڈیننس 2000 کے تحت اپیل دائر کرنی چاہیے تھی، لیکن درخواست گزار نے عدالت عالیہ سے حقائق چھپائے۔‘

نادرا حکام کی جانب سے عدالت کو مزید بتایا گیا کہ ’درحقیقت ارشد خان، ان کے والد اور دیگر اہل خانہ افغانی ہیں۔ 2002 میں درخواست گزار کے والد نے کسی طرح شناختی کارڈ بنوا لیا اور اسی پر بچوں کے رجسٹریشن سرٹیفکیٹ بھی بنوا لیے لیکن نادرا میں کوئی دستاویزی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔‘

رپورٹ کے مطابق 2004 میں ارشد خان نے زار محمد ولد باز محمد کے نام سے شناحتی کارڈ بنوایا جس میں والدہ کا نام زار سنگا ہے۔ ’ریکارڈ کے مطابق ارشد خان کی والدہ کا نام زار سنگا ہے جبکہ ریجنل ویریفکیشن بورڈ کو فراہم کیے گے پیدائشی سرٹیفکیٹ میں والدہ کا نام نیاز بی بی لکھا ہوا ہے۔

’2017 میں سمارٹ کارڈ بنوانے کے لیے نام زار محمد سے ارشد خان رکھ لیا اور نام تبدیلی کا بیان حلفی جمع کروایا اور خود کو پاکستانی شہری ظاہر کیا، جبکہ حکومتی تصدیقی ایجنسیوں کے مطابق وہ افغانی ہیں، ان رپورٹس پر 2018 میں ارشد خان اور اس کے والد کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تھا۔‘

رپورٹ کے مطابق ’افغان شہریوں کی وطن واپسی اور دستاویزات تصدیقی عمل کے دوران 19 ستمبر 2024 کو ارشد خان نادرا کے ریجنل ویریفکیشن بورڈ کے سامنے پیش ہوئے پھر 17 جنوری اور 21 جنوری 2025 کو بھی پیش ہوئے، اس دوران درخواست گزار نے ایک شیر خان نامی شخص کو اپنا ماموں ظاہر کیا اور کہا کہ ان کے پاس 1979 سے پہلے کی دستاویزات ہیں۔

’جب شیر خان کو بیان حلفی اور دیگر دستاویزات کے لیے کہا گیا تو وہ ناکام رہے، جس کے بعد سے معاملہ زیر التوا ہے کیونکہ وفاقی حکومت کے نوٹیفکیشن کی روشنی میں درخواست گزار تسلی بخش جواب نہیں دے پا رہا۔‘

جبکہ ڈپٹی اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل امیگریشن اینڈ پاسپورٹ اسلام آباد کی طرف سے جمع کروائی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ارشد خان کے پاس پاسپورٹ زار محمد ولد باز محمد کے نام کا ہے جو کارآمد شناختی کارڈ پر جاری کیا گیا۔‘

وفاقی محکموں کی رپورٹس پر درخواست گزار ارشد خان کے وکیل نے مہلت طلب کی جس پر جسٹس جواد حسن نے سماعت 29 اپریل تک ملتوی کر دی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان