پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے اداروں ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے حکام کے مطابق ملک بھر میں مون سون سیزن کے آغاز سے شدید بارشوں اور اچانک آنے والے سیلاب سے اب تک 32 افراد جان سے جا چکے ہیں، جن میں 16 بچے بھی شامل ہیں۔
خیبر پختونخوا کی صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے ہفتے کو جاری ہونے والے بیان میں بتایا کہ صوبے میں شدید بارشوں، تیز آندھی، فلیش فلڈ اور پہاڑی تودے گرنے کے باعث گذشتہ 48 گھنٹے کے دوران جانے سے جانے والے 19 افراد میں چھ مرد، پانچ خواتین اور آٹھ بچے شامل ہیں جب کہ زخمیوں میں تین مرد اور تین خواتین شامل ہیں۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق یہ حادثات صوبے کے مختلف اضلاع سوات، ایبٹ آباد، چارسدہ، ملاکنڈ، شانگلہ، دیر لوئر اور تورغر میں پیش آئے۔ سب سے زیادہ متاثرہ ضلع سوات رہا، جہاں 13 افراد کی جان گئی اور چھ زخمی ہوئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سوات میں سیلابی ریلے کی زد میں آکر جان سے جانے والوں میں صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے 10 سیاح بھی شامل ہیں۔
ڈیزاسٹر اتھارٹی نے مزید بتایا کہ خیبر پختونخوا میں سیلاب کے باعث 56 مکانات کو نقصان پہنچا، جن میں سے چھ مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔
دوسری جانب خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پنجاب کی ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ بدھ سے اب تک صوبے میں کم از کم 13 افراد کی جان جا چکی ہے، جن میں آٹھ بچے بھی شامل ہیں، جو شدید بارش کے دوران دیواریں اور چھتیں گرنے سے جان سے گئے۔
محکمہ موسمیات نے خبردار کیا کہ منگل (یکم جولائی) تک شدید بارشوں اور ممکنہ سیلاب کا خطرہ برقرار رہے گا۔
گذشتہ ماہ بھی ملک میں شدید طوفانوں کے باعث کم از کم 32 اموات ہوئیں، ملک میں موسم بہار میں بھی متعدد شدید موسمی واقعات پیش آئے، جن میں شدید ژالہ باری شامل ہے، جس کے نتیجے میں گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے حوالے سے سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں اور اس کے 24 کروڑ شہری بڑھتی ہوئی شدت کے ساتھ شدید موسمی حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔
سوات واقعے پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو استعفیٰ دینا چاہیے: وزیر اطلاعات
وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات عطا تارڑ نے ہفتے کو کہا ہے کہ سوات میں سیاحوں کے سیلابی ریلے میں بہہ جانے کے بعد ڈپٹی کمشنر سوات کو معطل کرنے کی بجائے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کو استعفیٰ دینا چاہیے۔
27 جون کو سوات میں سیلابی ریلے کی زد میں آکر جان سے جانے والوں میں صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے 10 سیاح بھی شامل تھے۔یہ افراد ناشتے کے بعد دریا میں ایک ٹیلے پر کھڑے تھے کہ سیلابی ریلا آیا اور وہ اس میں پھنس گئے اور بعدازاں ایک ایک کرکے بہہ گئے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے سوات واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’لوگ کئی گھنٹے تک دریا میں پھنسے رہے لیکن کسی نے ان کی جان نہیں بچائی حالاں کہ قدرتی آفات کے دوران ریلیف کی فراہمی حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ علی امین گنڈا پور کی حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سوات میں جو واقعہ پیش آیا اس پر پوری قوم دکھی ہے۔ سوات سیاحتی مقام ہے لیکن اس کی حالت بری کر دی گئی۔
بقول وزیر اطلاعات: ’سیاحوں کی نہیں بلکہ تحریک انصاف کے نظام کی موت ہوئی۔ سیاح اپنی زندگی کے لیے دہائیاں دیتے رہے لیکن آٹھ گھنے گزرنے کے بعد بھی انہیں بچانے کے لیے کوئی نہیں آیا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’صوبائی وزیر اعلیٰ کا ہیلی کاپٹر ریسکیو کارروائی کے لیے استعمال کیوں نہیں کیا گیا؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ خیبرپختوا حکومت 12 سال میں صوبے میں امدادی سروسز قائم نہیں کر سکی اور نہ اس کام کے لیے آلات حاصل کیے گئے۔
عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ ’وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کہتے ہیں کہ لوگوں کو خیمے دینا ان کا کام نہیں، تو پھر ان کا کام کیا ہے؟ اسلام آباد پر حملہ کرنا، رینجرز کو مارنا، پولیس والوں کو مارنا، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا، گالم گلوچ کرنا، لوگوں کی عزتیں اچھالنا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اڈیالہ سے کام کرتے ہیں۔ انہوں نے وہاں کیمپ آفس بنایا ہوا ہے۔انہیں وہاں سے احکامات ملتے ہیں لیکن خیمے دینا وزیراعلیٰ کا کام نہیں، لوگوں کو بچانا آپ کا کام نہیں۔ یہ کیا پیغام دیا جا رہا ہے؟ اگر لوگوں کی جان بچانا صوبائی حکومت کا کام نہیں تو صوبائی ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی بند کر دیں۔‘