اسلام آباد ہائی کورٹ کا سی ڈی اے ختم کرنے کا حکم 

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سی ڈی اے کا ادارہ ختم کر کے اس کے اختیارات میٹروپولیٹن کارپوریشن آف اسلام آباد کو تفویض کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔

اسلام آباد کے سیکٹر جی سیون میں کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی عمارت کا بیرونی منظر (فہد منظر/انڈپینڈنٹ اردو)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہفتے کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ترقی اور دیکھ بھال کے لیے ذمہ دار شہری ادارے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو ختم کرنے کے لیے اقدامات شروع کرنے اور اس کے اختیارات میٹروپولیٹن کارپوریشن آف اسلام آباد (ایم سی آئی) کر منتقل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

ہفتے کو جاری کیے گئے تفصیلی فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ’بڑی شاہراہوں سے پیٹرول پمپ و دیگر تک براہِ راست رسائی چارجز کے خلاف‘ کیس میں سی ڈی اے کی جانب سے عائد چارجز کا 2015 کا نوٹیفیکیشن بھی کالعدم قرار دے دیا۔ 

جسٹس محسن اختر کیانی نے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ جون 2015 کے نوٹیفکیشن کی بنیاد پر سی ڈی اے کی جانب سے کیے گئے تمام اقدامات بھی غیر مؤثر اور غیر قانونی سمجھے جائیں گے۔ 

فیصلے کے مطابق: ’اب اسلام آباد کے انتظامی، ریگولیٹری اور بلدیاتی نظام کی ذمہ داری اسلام آباد لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2015 کے تحت چلائی جا رہی ہے جبکہ سی ڈی اے کے تمام اختیارات، اثاثے اور فرائض میٹروپولیٹن کارپوریشن (ایم سی آئی) کو منتقل کیے جائیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیصلہ میں کہا گیا کہ اختیارات کی منتقلی کے بعد اسلام آباد کا نظام قانونی بلدیاتی نظام کے تحت چلے گا۔ 

عدالت نے کہا کہ ’سی ڈی اے کا اصل مقصد ختم ہو چکا ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ وفاقی حکومت سی ڈی اے  کے خاتمے کے لیے مناسب اقدامات کرے۔‘

عدالت نے اس نوٹیفکیشن کے تحت کسی بھی فرد یا ادارے سے وصول کی گئی رقم واپس کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سی ڈی اے کو تحلیل کر کے تمام اختیارات اور اثاثے ایم سی آئی کو منتقل کرنے کا کہا ہے۔ 

عدالت نے سی ڈی اے کے قیام سے متعلق یاد دہانی کرواتے ہوئے فیصلے میں لکھا کہ سی ڈی اے آرڈیننس وفاقی حکومت کے قیام اور اس کے ترقیاتی کاموں کے لیے نافذ کیا گیا تھا جبکہ نئے قوانین اور گورننس سے سی ڈی اے آرڈیننس کی عملی افادیت ختم ہو چکی ہے۔ 

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ چونکہ سی ڈی اے کے قیام کا مقصد پورا ہو چکا ہے لہذا حکومت اسے تحلیل کر کے یقینی بنائے کہ اختیارات منتقلی کے بعد اسلام آباد ایڈمنسٹریشن شفاف اور احتساب کے قابل ہو گی۔ 

فیصلے کے مطابق: ’اسلام آباد کے شہریوں کے حقوق کا تحفظ قانون کے تحت یقینی بنایا جائے، کیونکہ اسلام آباد لوکل گورنمنٹ ایکٹ منتخب نمائندوں کے ذریعے گورننس کا خصوصی قانون ہے۔ قانون کے مطابق لوکل گورنمنٹ کی منظوری کے بغیر ٹیکسز نہیں لگائے جا سکتے۔‘

عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ’سی ڈی اے کے پاس رائٹ آف وے یا ڈائریکٹ ایکسس جیسے ٹیکسز لگانے کا کوئی قانونی اختیار نہیں اور سی ڈی اے کا یہ رائٹ آف وے اور ایکسس چارجز کا ایس آر او کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔‘

سی ڈی اے نے پیٹرول پمپوں اور سی این جی سٹیشنز پر رائٹ آف ایکسس ٹیکس نافذ کیا تھا، جبکہ ہاؤسنگ سوسائٹیز پر مرکزی شاہراہ سے ڈائریکٹ ایکسس ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔

سی ڈی اے کا قیام 14 جون 1960 کو ایک آرڈیننس کے ذریعے ہوا تھا، جسے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 1960 بھی کہا جاتا ہے۔

یہ ادارہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ’منصوبہ بندی اور انتظامی امور کے لیے قائم کیا گیا تھا، جس کا بنیادی مقصد شہر کے ماسٹر پلان کے تحت اسے آباد کرنا، انفراسٹرکچر فراہم کرنا، زمین کی تقسیم اور ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کرنا‘ تھا۔

بعد ازاں سی ڈی اے کو صفائی، پانی اور سڑکوں کی مرمت جیسی میونسپل خدمات بھی دے دی گئیں، جو سال 2015 میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے نفاذ کے بعد منتخب بلدیاتی حکومت کو منتقل کی گئی تھیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان