سی ڈی اے اور وائلڈ لائف بورڈ میں تنازع ’اختیار کی کشمکش‘ بن گیا

وائلڈ لائف بورڈ کے مطابق وائلڈ لائف آرڈیننس 1979 کے تحت مارگلہ کی پہاڑیوں میں آگ لگانے، درختوں کو کاٹنے، نقصان پہنچانے یا کسی بھی چیز کو اٹھا کر اپنے ساتھ لے جانے کی ممانعت ہے۔

اسلام آباد میں واقع مارگلہ کی پہاڑیوں سے کھاد اٹھانے کا تنازع دو سرکاری محکموں کے درمیان اختیار کی کشمکش بن گیا ہے۔ سی ڈی اے اور وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ دونوں کے اہلکار اس علاقے پر اپنے محکمانہ اختیار کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

اس تنازعے کا آغاز کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھاڑتی کے اہلکاروں کی جانب سے مارگلہ کی پہاڑیوں میں واقع ٹریل فور سے کھاد اٹھانا بنا جس کے بعد سی ڈی اے اہلکار مذکورہ ٹریل پر نصب داخلی دروازے کو اکھاڑ کر ساتھ لے گئے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) ملازمین اسلام آباد مارگلہ ہلز میں قائم ٹریل فور کے داخلی دروازے کو توڑ رہے ہیں۔ بعد ازاں وہ ٹوٹے ہوئے گیٹ کو سی ڈی اے کی گاڑی میں رکھ کر لے گئے۔

واقعے کی تفصیلات انڈپینڈنٹ اردو کو بتاتے ہوئے اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے سیکرٹری عبدالحئی آغا نے بتایا کہ ’آج دوپہر کے وقت سی ڈی اے کے چند ملازمین قدرتی کھاد اکٹھی کرنے ٹریل فور پر آئے۔ قانون کے مطابق انھیں یا کسی کو بھی ایسا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اس لیے وائلڈ لائف بورڈ کے پروٹیکشن انچارج عمران خان نے انھیں ایسا کرنے سے روکا۔ اس پر وہ تلملا گئے اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔‘

یاد رہے کہ مارگلہ کی پہاڑیوں پر خشک پتوں، پہاڑی مٹی اور برساتی پانی کے امتزاج سے قدرتی کھاد بنتی ہے۔ یہ کھاد پودوں کی افزائش اور نشو و نما کے لیے بہت مفید سمجھی جاتی ہے۔

عبد الحئی آغا کے مطابق ’ہر سال کئی شہری اس کھاد کو چوری چھپے تھیلوں میں بھر کر مارگلہ کی پہاڑیوں سے سمگل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گذشتہ سال وائلڈ لائف بورڈ نے دس سے 12 افراد کا ایک ٹولہ رنگے ہاتھوں پکڑا جو قدرتی کھاد چرانے کی کوشش کر رہا تھا۔‘

’کیونکہ ہمارے پاس جرمانہ یا تادیبی کارروائی کرنے کا اختیار نہیں ہے اس لیے ہم نے فوری طور پر سی ڈی اے کے انوائرمنٹ ونگ اور محکمہ جنگلات کو اطلاع دی جنھوں نے ان افراد کو آٹھ ہزار روپے جرمانہ بھی کیا۔‘

عبد الحئی کے مطابق سی ڈی اے کے انھی محکموں کے افراد اس سال خود وہ حرکت کرنے آ گئے جس پر گذشتہ سال دوسروں کو جرمانہ کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا ’میں بذات خود وہاں موجود تھا۔ باوجود اس کے کہ سی ڈی اے ملازمین پروٹیکشن انچارج وائلڈ لائف عمران خان کو زخمی کر چکے تھے، میں نے اپنے ملازمین کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا کہا۔ ہم نے ویڈیو بنا لی تاکہ دستاویزی ثبوت موجود رہے کیونکہ سی ڈی اے ملازمین اسلام آباد وائلڈ لائف آرڈیننس 1979 کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عبد الحئی آغا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’وائلڈ لائف آرڈیننس 1979 کے آرٹیکل 21 کی ذیلی شق چار (تین) کے مطابق مارگلہ کی پہاڑیوں میں آگ لگانے، درختوں کو کاٹنے، نقصان پہنچانے یا کسی بھی چیز کو اٹھا کر اپنے ساتھ لے جانے کی ممانعت ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے سی ڈی اے کا موقف جاننے کے لیے متعلقہ محکمے کے ڈائریکٹر جنرل نوید ترین سے رابطے کی کوشش کی مگر وہ دستیاب نہ ہوئے۔ پھر سی ڈی اے کے محکمہ جنگلات کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر واقعے کی تصدیق کی۔ افسر کا کہنا تھا کہ ’’وائلڈ لائف بورڈ والے چاہتے ہیں کہ سی ڈی اے ٹوٹ جائے اور سارا کنٹرول ان کا مل جائے۔ اس لیے وہ ہماری معمول کی کارروائیوں میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ بس اسی بات پر ان سے ہمارے ملازمین کا جھگڑا ہو گیا تھا۔

سی ڈی اے اہلکار کے مطابق }وائلڈ لائف والوں نے ٹریل فور کو گیٹ لگا کر بند کیا ہوا تھا۔ ہماری سرکاری گاڑی کو اندر جانے دے رہے تھے نہ ہی تفریح کے لیے آنے والوں کو۔‘

قدرتی کھاد سے متعلق ہمارے استفسار پر سی ڈی اے کے محکمہ جنگلات کے افسر نے بتایا کہ ’ ہم یہ قدرتی کھاد اسلام آباد کی خوبصورتی کے لیے بنائی گئی کیاریوں میں تب سے استعمال کر رہے ہیں جب سے اسلام آباد بنا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے ہمیں کبھی کوئی اجازت نامہ لینے کی ضرورت نہیں پڑی۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ سی ڈی اے کو قدرتی کھاد اکٹھی کرنے سے روکا گیا ہو۔‘

یاد رہے کہ اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ ایک آئینی ادارہ ہے جو مارگلہ کی پہاڑیوں اور اس کے جنگلات سمیت جنگلی حیات کی دیکھ بھال پر مامور ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا