وزیراعظم شہباز شریف نے جمعے کو ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ پاکستان پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی انڈین جارحیت کا مشاہدہ کر رہا ہے، جو نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ ورلڈ بینک کی سربراہی میں ہونے والے عالمی معاہدے کی ’کھلم کھلا خلاف ورزی‘ بھی ہے۔
آذربائیجان کے شہر خانکندی میں جمعے کو اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے 17ویں سربراہی اجلاس سے خطاب میں شہباز شریف نے کہا کہ ’انڈیا کا اقدام مکمل طور پر ناقابل قبول ہے اور پاکستان اس کو مسترد کرتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ عالمی ثالثی عدالت نے بھی اپنی ایک حالیہ رولنگ میں اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔
وزیراعظم نے انڈین اقدام کو ’پاکستانی عوام کے خلاف کھلم کھلا جارحیت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دریائے سندھ کا پانی 24 کروڑ افراد کے لیے لائف لائن ہے اور نئی دہلی کو اس طرح کے کسی بھی خطرناک اقدام کی کبھی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے خلاف انڈیا نے بلا اشتعال اور کھلی جارحیت کی اور غیر قانونی انڈین زیرِ تسلط جموں وکشمیر میں ہونے والے واقعے کو اس کی بنیاد قراردیا، جو ’علاقائی امن کوغیرمستحکم کرنے کے مترادف‘ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈیا نے اپنے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں 22 اپریل 2025 کو ہونے والے حملے میں ہندو سیاحوں کی موت کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے ہوئے 1960 میں ہونے والا سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا تھا جبکہ دونوں ایٹمی ملک مئی میں چار روز حالتِ جنگ میں رہے، جس کا اختتام 10 مئی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی سے ہوا۔
پاکستان پہلگام حملے میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کرتا ہے جبکہ اسلام آباد نے سندھ طاس معاہدے کو اپنے لیے ’سرخ لکیر‘ قرار دیا ہے۔
اپنے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے انڈیا سے جنگ کے دوران پاکستانی افواج کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’ہماری بہادر مسلح افواج نے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں کردار کو دیکھا ہے۔ ہمارے بےخوف عوام نے بھی نمایاں کردار ادا کیا، جو عزم، حوصلہ اور پروفیشنلزم کی ایک بہترین مثال ہے۔‘
وزیراعظم نے علاقائی اتحاد و یکجہتی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اور جغرافیائی و سیاسی عدم استحکام سمیت علاقائی و عالمی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے اقتصادی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو بھرپور اشتراک کی ضرورت ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ علاقائی تعاون اور مشترکہ خوشحالی کے لیے ٹیکنالوجی کی ترقی ناگزیر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے انتہائی متاثرہ 10 ممالک میں شامل ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان نے پالیسی وضع کی ہے، جس میں بحالی اور تعمیرِنو کے چار نکاتی منصوبے پر توجہ مرکوز ہے۔ موسمیاتی مسائل اجتماعی اقدامات کے متقاضی ہیں۔‘
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ بدلتی ہوئی حالیہ عالمی صورت حال میں ٹیکنالوجیکل تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، جس سے باہمی انحصار فروغ پا رہا ہے اور بڑھتے ہوئی عالمی روابط، علاقائی تعاون کے مسائل کے حل سمیت اقتصادی تقسیم کے خاتمے اور مشترکہ خوشحالی کے اہداف کے حصول میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔
’اس تناظر میں اقتصادی تعاون تنظیم ہماری توقعات کی عکاسی کرتی ہے، پاکستان ای سی او کے برادر ممالک کے قابل فخرشراکت دار کے طور پر مشترکہ اہداف کے حصول کے لیے پرعزم ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ 17ویں ای سی او سربراہی اجلاس کی خصوصی توجہ پائیدار اور ماحولیاتی لچک پر مشتمل مستقبل پر ہے۔ یہ دونوں عوامل بروقت اور بھرپور توجہ کے حامل اور اہم ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کے دیگرممالک کی طرح ای سی او کے رکن ممالک ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے متاثر ہو رہے ہیں، جن میں گلیشیئرز کا پگھلنا بھی شامل ہے، جو درجہ حرارت میں اضافے کا نتیجہ ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اسی طرح سیلاب میں اضافہ اور زرعی پیداوار میں کمی کے مسائل بھی درپیش ہیں۔ یہ مسائل غذائی تحفظ کے حوالے سے کروڑوں افراد کے لیے غذائی تحفظ کے خطرات پیدا کرتے رہے ہیں۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ ’پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے10 بڑے ممالک میں شامل ہے اور 2022 میں ہمیں شدید سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔ 33 ملین سے زیادہ افراد متاثر ہوئے۔ ملک بھر میں بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا اور بنیادی ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچا۔‘
گذشتہ ہفتے بھی پاکستان کے ایک ضلع سوات میں سیلاب کی وجہ سے کئی قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ’پاکستان اور دیگر کئی ممالک کو اس طرح کے نقصانات کا سامنا ہے اور ماحولیاتی مسائل میں اضافہ کی وجہ سے بحران بڑھ رہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے ماحولیاتی مسائل میں کمی کے حوالے سے کردار ادا کرتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق متعدد پالیسی اقدامات کیے ہیں اور’فور ایف‘ منصوبے پر تیزی سے کام کیا جا رہا ہے، جس کے تحت ماحولیاتی لچک، بحالی، ریکوری اور تعمیرِنو پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پاکستان کاربن کے کم اخراج کی راہداریوں، ای سی او پر مشتمل کاربن کے خاتمے کے پلیٹ فارم اور علاقائی سطح پر قدرتی آفات کے مقابلہ کے لچکدار نظام کے خصوصی فریم ورک کی تجویز پیش کرتا ہے تاکہ کلائمیٹ فنانس کے قیام کے ساتھ ساتھ علاقائی سطح پر کلین انرجی کوریڈور اور ایکو ٹورازم کو فروغ دیا جا سکے تاکہ پائیدار اقتصادی ترقی کے اہداف کے حصول کے علاوہ بالخصوص نوجوانوں اورخواتین کے لیے گرین روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔
’ان اقدامات سے مختلف خطوں میں ابتدائی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔‘
’ایران اور دیگر ممالک پر اسرائیلی حملہ خطرناک رجحان کی عکاسی‘
اپنے خطاب میں وزیراعظم نے خطے کی حالیہ صورت حال کے حوالے سے کہا کہ ’عدم استحکام کی قوتیں اپنے جیو پولیٹیکل ایجنڈے کے تحت ہمارے خطے کو غیرمستحکم کر رہی ہیں۔
ایران اور دیگر ممالک پر غیر قانونی اور غیراخلاقی اسرائیلی حملہ اس خطرناک رجحان کی حالیہ عکاسی ہے۔‘
غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ’وہاں انسانی اقدار کو پس پشت ڈالتے ہوئے امدادی کارکنوں سمیت اقوام متحدہ کے اہلکاروں پر بھی اسرائیل حملے کر رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے غزہ کے عوام کے لیے اکلوتی لائف لائن کو بھی کاٹ دیا ہے اور غزہ کے لوگوں کو شدید غذائی مسائل کا سامنا ہے۔
بقول وزیراعظم: ’پاکستان دنیا بھر میں معصوم لوگوں کے خلاف اس طرح کے اقدامات کی شدید مذمت کرتا ہے، چاہے وہ غزہ یا غیر قانونی مقبوضہ کشمیر اور ایران کے علاوہ کہیں بھی ہوں۔‘
وزیراعظم کی ایرانی صدر سے ملاقات
وزیراعظم شہباز شریف نے آذربائیجان کے شہر خانکندی میں 17ویں ای سی او سربراہی اجلاس کے موقعے پر ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان سے بھی ملاقات کی۔
ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور ایران کے مابین تمام شعبوں میں جاری دوطرفہ تعاون کا جائزہ لیا اور تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اپنی گذشتہ ملاقات کے دوران کیے گئے فیصلوں پر ہونے والی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا۔
دونوں رہنماؤں نے ایران کے خلاف اسرائیل کی بلاجواز جارحیت کے تناظر میں ابھرتی ہوئی علاقائی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
وزیر اعظم نے صدر پزشکیان کی قیادت اور حالیہ بحران کے دوران ایران کے جنگ بندی کے فیصلے کو بھی سراہا۔
وزیراعظم نے ایران کے عوام اور حکومت کے ساتھ پاکستان کی غیر متزلزل یکجہتی کو دہراتے ہوئے خطے میں امن کے لیے مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے ایران کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنے کے پاکستان کے پختہ عزم کا اعادہ کیا۔
صدر پزشکیان نے حالیہ بحران کے دوران عالمی فورمز سمیت ایران کے لیے پاکستان کی مضبوط سفارتی حمایت کو سراہا اور تنازعے کو کم کرنے میں پاکستان کے اہم کردار پر شکریہ ادا کیا۔
وزیراعظم نے ایرانی صدر کو ایرانی سپریم لیڈر کے لیے مبارک باد اور نیک خواہشات کا پیغام بھی دیا۔
پاکستان اور آذربائیجان کا تجارت اور سرمایہ کاری میں تعاون
پاکستان اور آذربائیجان نے تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔
یہ بات وزیراعظم شہباز شریف اور آذربائیجان کے صدر الہام علیوف کے درمیان ای سی او سربراہی اجلاس کے موقعے پر خانکندی میں ہونے والی ملاقات میں سامنے آئی۔
دونوں رہنماؤں نے سرمایہ کاری کے امکانات کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا۔
انہوں نے اقتصادی شراکت داری کو مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا، خاص طور پر آذربائیجان کی پاکستان میں سرمایہ کاری۔
وزیراعظم نے اس بات کی تصدیق کی کہ دونوں ممالک کی قیادت کے درمیان حالیہ بات چیت نے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں مدد کی ہے۔
شہباز شریف نے صدر الہام کو جلد از جلد پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دہرائی۔
وزیراعظم کی ازبک صدر سے ملاقات
وزیراعظم شہباز شریف نے ازبکستان کے صدر شوکت مرزا یوف سے بھی آذربائیجان کے شہر خانکندی میں 17ویں ای سی او سربراہی اجلاس کے موقعے پر ملاقات کی۔
دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور ازبکستان کے مابین دوطرفہ اور کثیرالجہتی سطحوں پر جاری مضبوط تعاون پر اطمینان کا اظہار کیا۔
وزیراعظم اور ازبک صدر نے دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی، تہذیبی اور تاریخی تعلقات پر زور دیا جو متعدد شعبوں میں مضبوط شراکت داری کی ٹھوس بنیاد فراہم کرتے ہیں۔
دونوں رہنماؤں نے تجارت اور سرمایہ کاری، باہمی روابط، توانائی، علاقائی سلامتی، ثقافت اور عوامی تبادلوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔
ملاقات کے دوران، دونوں رہنماؤں نے علاقائی روابط کے منصوبوں، خاص طور پر ٹرانس افغان ریلوے منصوبے کی اہمیت پر زور دیا۔
اس مقصد کے لیے وزیراعظم شہباز شریف اور ازبک صدر نے معاہدوں کو حتمی شکل دینے کے لیے اپنے سینیئر وزرا کے تاشقند اور اسلام آباد کے دوروں پر اتفاق کیا۔
دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور ازبکستان کے درمیان دیرینہ برادرانہ تعاون کو مزید گہرا اور متنوع بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔