جس تیزی سے پاکستان عالمی کرکٹ میں اپنا مقام کھوتا جا رہا ہے اور کارکردگی کا گراف اس قدر گر چکا ہے کہ اگر کسی ناتجربہ کار ٹیم سے بھی پاکستان ٹیم جیت جائے تو جشن منایا جاتا ہے اور صدر و وزیراعظم مبارک باد پیش کرتے ہیں۔
حال ہی میں نیپال کے خلاف ایک ایسی جیت پر جس طرح جشن منایا گیا، اس سے اندازہ ہوا کہ ٹیم اب جیتنا بھول چکی ہے اور شکستوں کے انبار اس قدر ہیں کہ جیت کا خیال بھی نہیں آتا۔
مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ کپتان اور کوچ ہر شکست کے بعد اگلے میچ میں فتح کا دعویٰ کرتے ہیں اور شکست کو تیاری کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ اب پتہ نہیں کون سی تیاری کی بات کرتے ہیں لیکن ہر تیاری ہی ناکام ہو جاتی ہے۔
ان شکستوں پر بورڈ نہ تو فکرمند ہے اور نہ پریشان بلکہ ان کی نظر میں ٹیم بہت اچھی کارکردگی دکھا رہی ہے۔ بورڈ کا اطمینان غیر معمولی نہیں بلکہ تصوراتی نظر آتا ہے۔ بورڈ چاہے کچھ بھی کہتا رہے لیکن عوام اب قطعی طور پر مایوس ہو چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماضی میں کرکٹ سے لطف کے لمحات پاکستانی قوم کے لیے واحد تفریح ہوا کرتے تھے اور لوگ باجماعت ہوکر میچ ٹی وی پر دیکھتے یا ریڈیو پر رواں تبصرہ سنتے تھے اور اپنے من پسند کھلاڑیوں کو صرف داد ہی نہیں دیتے تھے بلکہ دعائیں کرتے تھے۔
اگرچہ اُس وقت بھی پاکستان کی جیت کا تناسب بہت زیادہ نہیں ہوتا تھا لیکن پھر بھی کھلاڑیوں کو سراہا جاتا اور انہیں اپنا آئیڈیل بنایا جاتا۔
ماضی میں جبکہ سوشل میڈیا کا وجود نہیں تھا اور الیکٹرونک میڈیا کی کوریج بہت محدود اور غیر شفاف ہوتی تھی تو ریڈیو واحد ذریعہ تھا جس پر لوگ کمنٹری سنتے اور میچ کے حالات سے باخبر رہتے تھے۔
لوگوں کی کرکٹ سے دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ جس راستے سے گزر جائیں لوگ چھوٹا سا ریڈیو کان سے لگائے کمنٹری سن رہے ہوتے اور جب کوئی چوکا یا چھکا لگتا تو واہ واہ کرتے۔
اس دور میں ایسے کھلاڑی ٹیم کا حصہ تھے جو کسی بھی ٹیم کے خلاف یا کسی بھی پچ پر سکور کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ظہیر عباس، ماجد خان، عمران خان، جاوید میاں داد، سرفراز نواز، مشتاق محمد، آصف اقبال، وسیم راجہ اور ان سے قبل حنیف محمد خان، محمد فضل محمود جیسے کھلاڑی اپنے شاندار کھیل سے مداحوں کو خوش رکھتے تھے۔ ان کا کھیل لوگوں کو ایک سرشاری اور نشہ مہیا عطا کرتا تھا۔
ماضی کے ایک زبردست ٹی وی ایکٹر سبحانی بایونس بتاتے تھے کہ ہم سٹوڈیو میں ریکارڈنگ چھوڑ کر میچ دیکھا کرتے اور سکولوں میں طلبہ کے ساتھ اساتذہ تک میچ پر بات کرتے رہتے تھے۔
ان کھلاڑیوں نے پاکستان کرکٹ کو زبردست عروج عطا کیا۔ یہ گلیمر اور فیشن سے عاری تھے اور نہ ہی کرکٹ کے میدان کو تبلیغی مرکز بناتے تھے۔ یہ سادہ اور پروقار انداز میں میدان میں آتے اور بغیر کسی ناز نخرے کے کھیلتے رہتے۔ یہ سکینڈلز سے آزاد اور بریکنگ نیوز سے دور رہتے۔
ان کی سادگی اور کھیل سے اخلاص کے باعث زمانہ ان کا دیوانہ تھا۔ لوگ ٹیسٹ میچ کے پانچوں دن لاہور اور کراچی کے سٹیڈیم میں بیٹھے رہتے۔ ان کھلاڑیوں کی وجہ سے اس وقت لوگ سٹیڈیم آتے تھے۔ حقیقت میں یہ ایک ایسی کشش اور چمک دمک تھی، جو ان سے پھوٹتی اور لوگوں کو دیوانہ بنا دیتی تھی۔ یہ اُس وقت سپر سٹار تھے جب میڈیا بہت دقیانوسی تھا۔
اب وہ کھلاڑی کہاں چلے گئے؟
زمانہ سوال کرتا ہے کہ کرکٹ تو اب بھی بہت ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا بہت تیز ہے، کھلاڑیوں کے پروموشن مینیجرز ہیں، کیمرہ مین ہیں، گلیمر کا زور ہے لیکن تماشائی پھر بھی انہیں دیکھنے میدان میں نہیں آتے۔ پاکستان میں ٹیسٹ میچوں میں تماشائیوں کا اس قدر فقدان ہے کہ گذشتہ کئی سیریز میں مفت داخلہ کر دیا گیا لیکن کوئی نہیں آیا۔
آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ آخر اب جاوید میاں داد اور عمران خان دوبارہ کیوں نہیں بنتے؟
کیا موجودہ کھلاڑیوں میں کوئی بھی اس قابل نہیں کہ لوگ اس کی کرکٹ، اس کے شاٹ، اس کی بولنگ دیکھنے آئیں؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ موجود کھلاڑیوں کے پاس نہ تو ٹیلنٹ ہے اور نہ صحیح تیکنیک۔ ان کی بیٹنگ اور بولنگ میں کوئی تسلسل نہیں ہے اور پھر ان کی فضول قسم کی پروموشن سے بھی لوگ متنفر ہو چکے ہیں۔
سٹیڈیم خالی کیوں؟
سٹیڈیم کے خالی رہنے کی وجہ یہی ہے کہ موجودہ کھلاڑیوں میں کسی کی بھی کارکردگی میں تسلسل نہیں ہے۔ یہ ناتجربہ کار ٹیموں سے ہار جاتے ہیں اور بڑی ٹیمیں ان کے ساتھ کھیلتی نہیں ہیں۔
اب لوگ سمجھدار بھی ہوچکے ہیں اور مصروف بھی ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی فضول کارکردگی سے بہتر ہے کہ ٹی وی پر غیر ملکی لیگز دیکھ لی جائیں۔ گذشتہ 30 سال میں پاکستان کرکٹ نے کوئی ایک بھی ایسا کرکٹر پیدا نہیں کیا، جس کی وجہ سے لوگ سٹیڈیم میچ دیکھنے آئیں۔
ان کے سٹار نہ بننے کی سب سے بڑی وجہ ان میں کھیل سے لگن اور دیانت داری کا فقدان ہے۔ یہ سیاسی داؤ پیچ لڑا کر ٹیم میں جگہ بناتے ہیں اور پھر ہارے ہوئے لشکر میں کہیں نہ کہیں چھپ جاتے ہیں۔
موجودہ دور میں کرکٹ سٹار نہ بننے کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن سب سے اہم ان کی بدترین کارکردگی اور بورڈ کی کمزوری ہے۔ اگر موجودہ ٹیم کے کھلاڑی کسی اور ملک میں ہوتے تو کبھی منتخب نہ ہو پاتے لیکن یہاں بورڈ کی کمزوری اور اقربا پروری کے ذریعے یہ کم اہلیت کے کھلاڑی قومی ٹیم کے رکن تو بن سکتے ہیں لیکن سٹار نہیں۔