کرکٹ آسٹریلیا کے سربراہ ٹوڈ گرین برگ نے کہا ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ کا روایتی فارمیٹ کرکٹ کھیلنے والے بعض ممالک کو مالی تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے اور ممکن ہے کہ کھیل کے لیے پانچ روزہ میچوں کی کم تعداد زیادہ فائدہ مند ہو۔
مارچ میں نک ہاکلی کی جگہ سی ای او کا عہدہ سنبھالنے والے گرین برگ نے کہا کہ ممکن ہے ٹیسٹ کرکٹ کا مستقبل کم ممالک اور ایشرز جیسی بڑی سیریز میں زیادہ سرمایہ کاری پر مشتمل ہو۔
گرین برگ نے بدھ کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، جب آسٹریلیا میں انگلینڈ کے خلاف ایشرز سیریز شروع ہونے میں سو دن باقی تھے، کہا ’میں نہیں سمجھتا کہ دنیا کے ہر کرکٹر کو ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کی خواہش ہونی چاہیے اور یہ شاید ٹھیک بھی ہے۔
’ہم حقیقتاً ممالک کو دیوالیہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اگر ہم انہیں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے پر مجبور کریں۔‘
گرین برگ نے، جو کرکٹ کھلاڑیوں کی یونین کے سابق سربراہ ہیں، کہا کرکٹ بورڈز کو تعداد کی بجائے بامعنی مقابلوں کو ترجیح دینی چاہیے۔
’ٹیسٹ کرکٹ کے کم میچ ہمارے دوست ہیں، دشمن نہیں۔‘
’ہمیں یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ہم ٹیسٹ کرکٹ انہی مقامات پر کھیلنے میں سرمایہ کاری کریں جہاں اس کی کوئی اہمیت ہو اور جہاں چینلج موجود ہو۔
’ اسی لیے ایشرز سیریز اتنی بڑی اور منافع بخش ہے کیوں کہ اس کی اہمیت ہے۔‘
اگرچہ نومبر کے آخر میں پرتھ سے شروع ہونے والی پانچ ٹیسٹ میچوں کی ایشرز سیریز کے لیے ٹکٹوں کی ریکارڈ طلب دیکھی گئی ہے، لیکن کرکٹ کا سب سے طویل فارمیٹ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے دباؤ میں ہے۔
تیزی سے بڑھتی ہوئی ٹی ٹوئنٹی فرنچائز لیگیں، جو کھلاڑیوں کو پرکشش معاہدوں کی پیشکس کرتی ہیں، عالمی شیڈول پر حاوی ہو رہی ہیں۔
ان لیگز نے کئی بڑے کھلاڑیوں کو ٹیسٹ اور ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ چھوڑنے پر آمادہ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگرچہ آسٹریلیا ہر ہوم سیزن میں ٹیسٹ میچوں کا بھرپور شیڈول برقرار رکھتا ہے، لیکن وہ ٹی ٹوئنٹی میں بھی ابتدائی قدم اٹھانے والوں میں شامل رہا۔
بگ بیش لیگ (بی بی ایل) دسمبر میں اپنے 15 ویں سیزن میں داخل ہو رہی ہے۔
کرکٹ آسٹریلیا نے بی بی ایل ٹیموں پر نجی سرمایہ کاری کی اجازت دینے کی مزاحمت کی، لیکن گرین برگ نے اشارہ دیا کہ بوسٹن کنسلٹنگ گروپ کے جائزے کے بعد یہ پالیسی ختم ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ہمارے لیے، یہاں آسٹریلیا میں بیٹھے ہوئے، مکمل طور پر سادہ پن ہوگا کہ اگر ہم (نجی ملکیت) کا جائزہ نہ لیں۔
’میں یہ نہیں کہہ رہا کہ کوئی فیصلہ ہو چکا ہے اور آخرکار یہ صرف میرا یا کرکٹ آسٹریلیا کا فیصلہ نہیں ہوگا۔
’یہ آسٹریلوی کرکٹ کے پورے انتظامی ڈھانچے کا فیصلہ ہو گا اور یہ سب کے لیے فائدہ مند ہونا چاہیے۔‘