عدالتوں میں اے آئی کے استعمال پر یونیسکو کے رہنما اصول جاری

تین دسمبر کو جاری کی گئی گائڈ لائنز کو دنیا بھر کے 196 ممالک کے 36000 سے زیادہ قانونی ماہرین نے تیار کیا ہے، جن میں وکلا، ججز اور دیگر عملے کے لیے رہنما اصول موجود ہیں۔

19 فروری 2024 کی اس تصویر میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے الفاظ کے سامنے کمپیوٹر اور سمارٹ فون کے ساتھ مجسمے نظر آرہے ہیں (روئٹرز)

آسٹریلیا کی ایک عدالت میں 2023 میں ذہنی معذوری کے شکار ایک بچے کا مقدمہ سامنے آیا جس میں بچے پر قتل کا مقدمہ درج تھا۔

سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ مخالف وکیل نے مصنوعی ذہانت کا استعمال کر کے مقدمے میں کچھ جعلی دستاویزات پیش کی تھیں۔ وکیل نے اس پر عدالت سے معافی مانگی۔ جج نے بچے کو بری کر دیا۔ 

یہ عدالتی کارروائیوں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کی واحد مثال نہیں ہے بلکہ ارجنٹائن، امریکہ، آسٹریلیا سمیت مختلف ممالک میں اس رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

مصنوعی ذہانت کے استعمال میں اضافے کی وجہ سے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائٹڈ نیشنز ایجوکیشنل، سائنٹیفک اینڈ کلچرل (یونیسکو) نے عدالتی نظام میں کچھ رہنما اصول مرتب کیے ہیں۔

تین دسمبر کو جاری کیے گئے رہنما اصولوں کو دنیا بھر کے 196 ممالک کے 36 ہزار سے زیادہ قانونی ماہرین نے تیار کیا ہے، جن میں وکلا، ججز اور دیگر عملے کے لیے رہنما اصول موجود ہیں۔

انہی رہنما اصولوں کے مطابق عدالتی کارروائیوں میں مصنوعی ذہانت کی مختلف ایپلیکیشنز استعمال کی جا سکتی ہیں، تاہم ان میں انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے گا۔

انسانی حقوق کے حوالے سے گائیڈ لائنز میں بتایا گیا ہے کہ مقدمات لکھنے یا وکلا کی جانب سے مصنوعی ذہانت کے استعمال کے دوران تمام افراد کا ذاتی ڈیٹا خفیہ رکھا جائے گا اور اس کو مصنوعی ذہانت کی ایپلیکشنز میں استعمال نہیں کیا جائے گا۔

رہنما اصولوں میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کبھی بھی جج یعنی انسانی فیصلے کی جگہ نہیں لے سکتی، تاہم اس کو بطور مددگار ٹول استعمال کیا جا سکتا ہے۔

غلطیاں

یونیسکو کے رہنما اصولوں کے مطابق عدالتی فیصلوں کی ڈرافٹنگ کے دوران ڈرافٹ کی گرامر، ہجے کی غلطیاں، اور ڈرافٹ کو آسان الفاظ میں لکھنے کے لیے اے آئی استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن ڈرافٹ بننے کے بعد اس کی درست طریقے سے نظر ثانی کی جائے گی۔

جعلی گواہان اور عدالتی فیصلے

رہنما اصولوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ عدالتیں اس بات کی پابند ہوں گی کہ اے آئی کے ذریعے جعلی گواہان، یا عدالتی فیصلے نہ لکھیں کیونکہ اس سے عدالتوں کی آزادی اور انصاف کے حصول میں خلل پڑ سکتا ہے۔

اسی طرح جو بھی مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کیا جاتا ہے تو اس کی باقاعدہ طور پر مستند ذرائع سے تصدیق کرنا لازمی ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیصلوں میں اے آئی کا ذکر

ان رہنما اصولوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر کسی عدالتی فیصلے میں اے آئی سے مدد لی گئی ہے تو اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جو حصہ مصنوعی ذہانت پر مبنی ہے، اس کا باقاعدہ فیصلے میں ذکر لازمی کیا جائے۔

اسی طرح جج کی جانب سے شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے اے آئی سے بننے والے مواد کا حوالہ بھی لکھنا ضروری ہے، تاکہ عام لوگوں کو یہ پتہ ہو کہ اس فیصلے میں مصنوعی ذہانت کی مدد کیسے اور کیوں لی گئی۔

ماہرین کی رائے

پاکستان کے عدالتی نظام میں ابھی تک اے آئی کو باقاعدہ سسٹم کا حصہ تو نہیں بنایا گیا لیکن وکلا کے مطابق بعض تحقیق یا آئیڈیاز کے لیے مصنوعی ذہانت سے مدد لی جا رہی ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل بیرسٹر حذیفہ احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جدید دور میں اے آئی کی عدالتی نظام میں انٹیگریشن وقت کی ضرورت ہے لیکن اس میں مستند ہونے کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔

بعض اوقات بیرسٹر حذیفہ کے مطابق پاکستانی قوانین دنیا کے دیگر قوانین کے ساتھ برابر نہیں ہوتے جبکہ اے آئی اس مسئلے کو سمجھنے میں غلطی کر دیتا ہے، جس سے ایسا جواب ملتا ہے جو درست ہی نہیں ہوتا۔

حذیفہ نے بتایا کہ ’پاکستان کامن ویلتھ کا حصہ ہے اور کچھ کم یا زیادہ ہمارے پروسیجرل یا بنیادی قوانین اوورلیپ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے مصنوعی ذہانت بعض دفعہ غلط جواب دیتی ہے۔‘

اے آئی کے استعمال سے ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ کچھ منفی پہلوؤں کے علاوہ اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس سے عدالتی فیصلوں میں تاخیر کم ہو گی اور انصاف کا حصول جلدی ہو سکے گا۔

حذیفہ نے مزید کہا کہ ’اے آئی سے پروسیجرل معاملات میں کم وقت لگے گا کیونکہ یہ آپ کو اس میں مدد دے گی کہ اگر کسی مسئلے میں فیصلہ آگیا ہے، تو وہ آسانی سے آپ کو نکال کر دے سکے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی