گولڈ مین ساشے کے ڈیٹا چیف نے کہا ہے کہ اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی اور گوگل کے جیمنی جیسے مصنوعی ذہانت (AI) ماڈلز کا تربیتی ڈیٹا ختم ہو چکا ہے۔
بینک کے چیف ڈیٹا آفیسر اور ہیڈ آف ڈیٹا انجینیئرنگ نیما رافیل کے مطابق یہ مسئلہ مصنوعی ذہانت کی بڑھوتی کو متاثر کر سکتا ہے۔
رافیل نے بینک کے ایکسچینجز پوڈکاسٹ میں کہا ’ہمارا ڈیٹا پہلے ہی ختم ہو چکا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اے آئی ماڈلز اب تیزی سے اس نام نہاد ’مصنوعی ڈیٹا‘ (synthetic data) پر انحصار کر رہے ہیں جو خود مصنوعی ذہانت تیار کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا ’میرا خیال ہے ایک دلچسپ پہلو یہ ہو گا کہ لوگ یہ سوچ سکتے ہیں کہ شاید تخلیقی صلاحیتوں میں ایک جمود آ جائے۔
’اگر تمام ڈیٹا مصنوعی طور پر تیار کیا جا رہا ہو تو پھر انسانی ڈیٹا کس حد تک شامل کیا جا سکے گا؟ یہ فلسفیانہ لحاظ سے دیکھنے کے لیے ایک دلچسپ بات ہوگی۔‘
یہ پہلی بار نہیں کہ صنعت کے سینیئر ماہرین نے اس مسئلے پر تشویش ظاہر کی ہو، جسے ’پیک ڈیٹا‘ (Peak Data) کہا جاتا ہے — یعنی وہ مرحلہ جب اے آئی ماڈلز انٹرنیٹ پر موجود سارا دستیاب مواد استعمال کر چکے ہوں۔
دسمبر میں شائع ہونے والے جریدے نیچر Nature کے ایک مضمون میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ 2028 تک ایک ’بحران کا لمحہ‘ آئے گا۔
مضمون میں کہا گیا ’انٹرنیٹ انسانی علم کا ایک وسیع سمندر ہے، مگر یہ لامحدود نہیں۔ مصنوعی ذہانت کے محققین نے تقریباً اسے خشک کر دیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اوپن اے آئی کے شریک بانی ایلیا سٹسکیور نے گذشتہ سال کہا تھا کہ تربیتی ڈیٹا کی کمی کے باعث اے آئی کی تیز رفتار ترقی ’یقینی طور پر ختم ہو جائے گی۔‘
سٹسکیور کے مطابق یہ صورت حال فوسل فیولز جیسی ہے کیونکہ انسانی تخلیق کردہ مواد بھی تیل یا کوئلے کی طرح محدود وسائل میں شمار ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا ’ہم ’پیک ڈیٹا‘ تک پہنچ چکے ہیں اور اب مزید ڈیٹا نہیں ہو گا۔ ہمیں اسی ڈیٹا سے کام چلانا ہوگا جو ہمارے پاس موجود ہے۔ آخرکار صرف ایک ہی انٹرنیٹ ہے۔‘
نئے ڈیٹا کی کمی کے باعث اے آئی کمپنیاں ممکنہ طور پر موجودہ تربیتی ماڈلز سے ہٹ کر اپنی توجہ نئے نظاموں کی طرف منتقل کریں گی — خاص طور پر ’ایجنٹک مصنوعی ذہانت‘ (agentic AI) پر۔
ایجنٹک اے آئی سسٹمز، جو پہلے ہی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جانب سے تیار اور متعارف کرائے جا رہے ہیں، ایسے خودمختار نظام ہوتے ہیں جو بغیر انسانی نگرانی کے خود فیصلے کر سکتے ہیں اور آن لائن کام انجام دے سکتے ہیں۔
© The Independent