اے آئی کے بڑھتے استعمال کے بعد سکولوں میں اب نقل کی تعریف کیا ہو گی؟

مسئلہ یہ ہے کہ طلبہ کو یہ بات سمجھ نہیں آ سکتی کہ اے آئی کا استعمال کہاں تک جائز ہے اور کہاں سے نقل شمار ہو گا۔

’میں ہوم ورک دوں گا تو وہ اے آئیڈ ہو گا، یہ تو اب طے ہو چکا ہے!‘

ہماری زندگیوں میں اے آئی کی بہت زیادہ سرایت کے بعد سکولوں میں بھی گھر لے جانے والے ٹیسٹ اور ہوم ورک اب ماضی کی بات ہو چکے ہیں۔ آج کے دور میں ہائی سکول اور کالج اساتذہ کا کہنا ہے کہ گھر پر کوئی بھی تحریری اسائنمنٹ دینا ایسے ہے جیسے طلبہ کو خود نقل کی دعوت دینا۔

کیسی کُنی بائیس برس سے امریکہ میں انگلش پڑھا رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت نقل اپنی انتہا پر ہے، ایسا میں نے اپنے پورے کیریئر میں نہیں دیکھا۔ اب اساتذہ کے نزدیک یہ سوال ہی باقی نہیں رہا کہ طلبہ گھر کا کام مصنوعی ذہانت کے ذریعے کریں گے یا نہیں، بلکہ یہ حقیقت بن چکی ہے کہ جو بھی کام گھر دیا جائے وہ AI سے ہی تیار ہو گا۔‘

یہی وجہ ہے کہ اکثر اب زیادہ تر ٹیسٹ کلاس روم کے اندر ہوتے ہیں۔ اساتذہ طلبہ کی سکرینز مانیٹر کرتے ہیں، بعض اوقات انہیں لاک کر دیتے ہیں اور ساتھ ساتھ بچوں کو یہ بھی سکھاتے ہیں کہ اے آئی کو پڑھائی کے لیے کس طرح مثبت طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ نقل کے بجائے اس سے کچھ سیکھ سکیں۔

کیلی گبسن ایک اور ٹیچر ہیں، وہ بھی یہی کہتی ہیں کہ ’میں اب اسائنمنٹس گھر نہیں بھیج سکتی۔ میں زیادہ تر زبانی ٹیسٹ لیتی ہوں اور طلبہ سے گفتگو کر کے ان کی سمجھ بوجھ جانچ لیتی ہوں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر میں دو ہفتے بعد پانچ پیراگراف کا مضمون مانگوں تو یہ تو سیدھا سیدھا بچوں کو چیٹنگ کی دعوت دینا ہو گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مسئلہ یہ ہے کہ طلبہ کو یہ بات سمجھ نہیں آ سکتی کہ  اے آئی کا استعمال کہاں تک جائز ہے اور کہاں سے نقل شمار ہو گا۔ کچھ طلبہ آؤٹ لائن یا ایڈیٹنگ کے لیے  چیٹ جی پی ٹی استعمال کرتے ہیں، کچھ مشکل مضامین کو سمجھنے کے لیے ان کے خلاصے پڑھتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب چیٹنگ ہے یا پڑھائی میں مدد؟

شروع میں کئی تعلیمی اداروں نے اس پر پابندی لگائی لیکن اب کئی امریکی یونیورسٹیاں اے آئی پر تفصیلی گائیڈ لائنز بنانے میں مصروف ہیں۔ مثلاً کیلیفورنیا یونیورسٹی نے اپنے اساتذہ کو کہا ہے کہ نصاب میں واضح لکھیں کہ اے آئی کا استعمال کہاں درست ہے اور کہاں ممنوع۔ کارنیگی میلن یونیورسٹی نے تو یہ تک کہا ہے کہ AI کے بغیر تعلیم کا تصور اب ممکن ہی نہیں رہا، اس لیے مکمل پابندی کوئی پالیسی نہیں ہو سکتی۔

دوسری جانب کئی اساتذہ نے کاغذ قلم والے ٹیسٹ دوبارہ شروع کر دیے ہیں۔ کچھ نے کلاس روم کا ماڈل بدل دیا ہے، یعنی ہوم ورک بھی کلاس میں کروایا جاتا ہے تاکہ طلبہ کو  اے آئی پر انحصار نہ کرنا پڑے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف طلبہ کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ 18 سالہ بچوں سے یہ توقع رکھنا غیر حقیقت پسندانہ ہے کہ وہ ہر وقت ضبط کا مظاہرہ کریں گے۔ اصل ذمہ داری اساتذہ پر ہے کہ وہ گائیڈ لائنز بنائیں، واضح اصول طے کریں اور ایسا تعلیمی ماحول پیدا کریں جہاں تعلیم سیکھنے کا عمل رہے، نقل کا نہیں۔


آپ کے سکول یا یونیورسٹی نے اس بارے میں اب تک کیا کیا؟ آیے، کمنٹس میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس