آسٹریلیا کے ایک ریڈیو سٹیشن کو چھ ماہ تک مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے بنائے گئے میزبان کو بغیر اطلاع دیے استعمال کرنے پر تنقید کا سامنا ہے۔
آسٹریلین ریڈیو نیٹ ورک (ARN) کے سی اے ڈی اے (CADA) سٹیشن نے، جو سڈنی اور آئی ہارٹ ریڈیو ایپ پر نشر ہوتا ہے، ’تھائی ‘ (Thy) نامی میزبان کو آواز کلون کرنے والی کمپنی ’الیون لیبز‘ (ElevenLabs) کے تیار کردہ اے آئی سافٹ ویئر کی مدد سے تخلیق کیا۔
’ورک ڈیز وِد تھائی‘ نامی شو ہر پیر سے جمعہ تک روزانہ چار گھنٹے موسیقی پیش کرتا رہا، لیکن سٹیشن کی ویب سائٹ یا پروموشنل مواد پر یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ تھائی ایک حقیقی انسان نہیں۔
شو کے صفحے پر لکھا ہے: ’اگر آپ کا دن تھوڑا سا بے جان لگ رہا ہے تو تھائی اور سی اے ڈی اے کو اپنی توانائی اور جوش بحال کرنے دیں۔‘
تھائی کی اصل حقیقت اس وقت سامنے آئی جب سڈنی سے تعلق رکھنے والی مصنفہ سٹیفنی کومبس نے سوال اٹھایا کہ آیا تھائی واقعی ایک حقیقی انسان ہے؟
اس مہینے کے شروع میں اپنی بلاگ پوسٹ میں مس کومبس نے لکھا: ’تھائی کا پورا نام کیا ہے؟ وہ کون ہے؟ کہاں سے آئی ہے؟ اس خاتون کے بارے میں کوئی سوانح حیات یا مزید معلومات موجود نہیں جو مبینہ طور پر یہ شو پیش کر رہی ہیں۔‘
آواز کے کلپس کا تجزیہ کرنے پر انکشاف ہوا کہ مختلف شوز میں جب تھائی نے ’اولڈ سکول‘ کہا تو ہر بار آواز بالکل یکساں تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعد ازاں اے آر این کے پروجیکٹ لیڈر فائد توہمی نے تسلیم کیا کہ تھائی کی آواز اے آئی کی مدد سے بنائی گئی ہے۔
ایک لنکڈ اِن پوسٹ میں، جو اب حذف کی جا چکی ہے، توہمی نے لکھا کہ تھائی ’حقیقی لگتی ہے‘ اور اس کے حقیقی مداح بھی ہیں، حالانکہ وہ حقیقت میں موجود نہیں۔
انہوں نے مزید لکھا: ’نہ مائیک، نہ سٹوڈیو، صرف کوڈ اور جذبہ۔ یہ اے آر این اور الیون لیبز کا ایک تجربہ ہے جو ’لائیو ریڈیو‘ کے تصور کی حدود کو آگے بڑھا رہا ہے۔‘
آسٹریلین کمیونیکیشنز اینڈ میڈیا اتھارٹی کے مطابق نشریاتی مواد میں اے آئی کے استعمال پر فی الحال کوئی پابندی نہیں۔
تاہم آسٹریلین ریڈیو نیٹ ورک کو اس بات پر تنقید کا سامنا ہے کہ اس نے اپنے ایک باقاعدہ شو میں اے آئی کے استعمال کا انکشاف نہیں کیا۔
آسٹریلین ایسوسی ایشن آف وائس ایکٹرز کی نائب صدر ٹریسا لِم نے میڈیا ویک کو بتایا: ’انہیں شروع سے صاف اور مکمل دیانت داری کے ساتھ یہ بتانا چاہیے تھا کہ ریڈیو میزبان اے آئی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’لوگوں کو یہ سمجھا کر دھوکہ دیا گیا کہ یہ ایک حقیقی انسان ہے کیونکہ کہیں بھی اے آئی کا لیبل موجود نہیں تھا۔‘
اے آر این نے ایک بیان میں کہا کہ وہ ’دیکھ رہے ہیں کہ نئی ٹیکنالوجی کس طرح معیاری مواد میں مدد دے سکتی ہے‘ اور اپنی کارکردگی کو بہتر بنا سکتی ہے۔
بیان میں کہا گیا: ’ہم سی اے ڈی اے پر تھائی کی آواز، جو اے آر این ٹیم کی رکن ہے، کا استعمال کرتے ہوئے اے آئی آڈیو ٹولز کا تجربہ کر رہے تھے۔‘
’یہ ایک ایسا میدان ہے جسے دنیا بھر میں براڈکاسٹرز دریافت کر رہے ہیں، اور اگرچہ اس تجربے نے قیمتی معلومات فراہم کی ہیں، لیکن اس نے اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ حقیقی شخصیات کس طرح واقعی مؤثر مواد تخلیق کرنے میں منفرد اہمیت رکھتی ہیں۔‘
© The Independent