ڈیپ سیک کے بعد ’مینس‘: اے آئی میں چین کی ایک اور چھلانگ

خود مختار اے آئی ایجنٹس کا دور شروع ہو چکا ہے اور اس دوڑ میں چین سب سے آگے ہے۔ اب دنیا کو دوبارہ سوچنا ہو گا کہ ذہانت صرف انسانوں تک محدود نہیں رہی۔

ماہرین کہتے ہیں کہ مینس نے مصنوعی ذہانت کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے (مینس/انواتو)

ایک ایسے سیکریٹری کا تصور کریں جو بالکل آپ کی طرح کمپیوٹر استعمال کر سکتا ہے، براؤزر کھول سکتا ہے، فارم پر کر سکتا ہے، ای میلز لکھ سکتا ہے، سافٹ ویئر کوڈنگ کر سکتا ہے اور فوری فیصلے کر سکتا ہے۔

لیکن فرق یہ ہے کہ یہ کبھی نہیں تھکتا نہ کبھی چھٹی کرتا ہے۔ یہ کوئی سائنس فکشن نہیں بلکہ چین کی جانب سے متعارف کرایا گیا نیا اے ماڈل ’مینس‘ (Manus) ہے جس نے دنیا کو دنگ کر دیا ہے۔

یہ محض ایک چیٹ بوٹ نہیں ہے، نہ ہی کوئی سرچ انجن۔ یہ پہلا اے آئی ماڈل ہے جو خود فیصلے کرتا ہے، خود منصوبہ بندی کرتا ہے اور بغیر کسی انسانی ہدایت کے کام سرانجام دیتا ہے۔

عام طور پر تصور کیا جاتا تھا کہ چین مصنوعی ذہانت کے میدان میں امریکہ سے میلوں پیچھے ہے۔ مگر پہلے تو ڈیپ سیک نے اس تصور کو بدلا، اور اب مینس نے اس خیال کو مزید تقویت دی ہے کہ چین کو کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے میدان میں ہلکا نہیں لیا جا سکتا۔

یہ نیا اے آئی ماڈل ڈیپ سیک تیار کرنے والی کمپنی کی حریف علی بابا کی ذیلی کمپنی مانیکا نے تیار کیا ہے۔

جہاں مغربی اے آئی ماڈلز کو انسانی رہنمائی درکار ہوتی ہے، وہاں مینس بغیر اجازت کے بھی خود فیصلے کر سکتا ہے۔ اس کی رفتار اور ذہانت نے پوری اے آئی  انڈسٹری کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

امریکی میگزین فوربز کے مطابق یہ ایک خود مختار مصنوعی ذہانت کا نظام ہے جو ویب براؤزنگ، سرمایہ کاری کے تجزیے، اور دیگر پیچیدہ کاموں کو انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اس چینی ٹول کو اوپن اے آئی، گوگل اور اینتھروپک جیسے ماڈلز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے اور اس کی کارکردگی مبینہ طور پر کئی جدید اے آئی ماڈلز سے بہتر ہے۔ مینس ابھی ابتدائی آزمائشی مراحل میں ہے اور محدود صارفین کو دستیاب ہے۔

ڈیپ سیک کے بعد دنیا کو دوسرا بڑا سرپرائز

دو ماہ قبل چین نے ڈیپ سیک نامی ایک اے آئی ماڈل کا تازہ ترین ورژن متعارف کرایا تھا جو اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی کے برابر تھا اور اسے انتہائی کم لاگت سے تیار کیا گیا تھا۔

ڈیپ سیک کو چین کے لیے مصنوعی ذہانت کے میدان میں ’سپٹنک لمحہ‘ کہا گیا تھا، لیکن فوربز میگزین کے مطابق مینس دنیا کے لیے اس سے بھی بڑا سرپرائز ہے، یہ صرف ایک اور ماڈل نہیں ہے، بلکہ اے آئی ایجنٹ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کمپنی کی ویب سائٹ پر جاری کردہ ویڈیو کے مطابق مینس ایک اے آئی ایجنٹ نہیں بلکہ اس کے اندر مختلف ایجنٹ ہیں، جن کی صلاحیتیں اور سپیشلائزیشن مختلف ہیں۔ یہ انسانوں کی ایک ٹیم کی مانند ہے جس میں مختلف شعبوں کے ماہرین اکٹھے مل کر کسی پراجیکٹ پر کام کرتے ہیں۔

مینس کی اصل طاقت اس کے ملٹی ایجنٹ ڈیزائن میں پوشیدہ ہے۔ یہ کسی ایک نیورل نیٹ ورک پر انحصار کرنے کے بجائے ایک ایسے ایگزیکٹو کی طرح کام کرتا ہے جو مختلف مہارتوں والے ذیلی ایجنٹس کی ایک ٹیم کا نگران ہوتا ہے۔ جب اسے کوئی پیچیدہ کام تفویض کیا جاتا ہے تو یہ اسے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرتا ہے، ہر حصے کو موزوں ایجنٹ کے حوالے کرتا ہے اور ان کے کام کی نگرانی کرتا ہے۔ اس لحاظ سے مینس ایسا نظام ہے جو خود سے سوچتا ہے، منصوبہ بندی کرتا ہے اور حقیقی دنیا میں آزادانہ طور پر کام انجام دیتا ہے۔

یہی چیز مینس کو اس کے مغربی ہم منصبوں سے ممتاز کرتی ہے۔ جہاں چیٹ جی پی ٹی 4 اور گوگل کا جیمنائی انسانی ہدایات پر انحصار کرتے ہیں، وہاں مینس ہدایات کا انتظار نہیں کرتا۔ اس کے بجائے، یہ خود سے کام شروع کرنے، نئی معلومات کا جائزہ لینے اور اپنی حکمت عملی کو متحرک طور پر ایڈجسٹ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ بہت سے لحاظ سے پہلا حقیقی عوامی اے آئی ایجنٹ ہے۔

کمپنی کی ویڈیو کے مطابق اگر مینس کو امیدواروں کے سی ویز پر مشتمل ایک زِپ فائل دی جائے تو یہ صرف امیدواروں کی درجہ بندی نہیں کرتا بلکہ ہر سی وی کو خود پڑھتا ہے، متعلقہ مہارتیں نکالتا ہے، انہیں جاب مارکیٹ کے رجحانات سے موازنہ کرتا ہے اور ایک مکمل بہتر بھرتی کا فیصلہ پیش کرتا ہے جس کے ساتھ ایک ایکسل شیٹ بھی شامل ہوتی ہے جو اس نے خود تیار کی ہوتی ہے۔

اسی طرح اگر اسے کوئی مبہم حکم دیا جائے جیسے ’سان فرانسسکو میں میرے لیے ایک اپارٹمنٹ تلاش کرو،‘ تو یہ صرف سرچ کے نتائج فراہم کرنے تک محدود نہیں رہتا، بلکہ یہ یہاں کے علاقوں میں جرائم کے اعداد و شمار، کرایوں کے رجحانات، یہاں تک کہ موسم کے پیٹرن کا بھی تجزیہ کرتا ہے اور صارف کی غیر ظاہر کردہ ترجیحات کے مطابق موزوں گھروں کی فہرست فراہم کرتا ہے۔

روایتی اے آئی اسسٹنٹس کو صارف کی براہِ راست شمولیت درکار ہوتی ہے جبکہ مینس پسِ منظر میں اپنا کام مکمل کرتا ہے اور صارف کو صرف اس وقت اطلاع دیتا ہے جب نتیجہ تیار ہو۔ یہ ایک ایسے محنتی ملازم کی طرح ہے جسے کسی نگرانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔

خود مختار اے آئی کا عروج

ابتدائی طور پر مینس کی افادیت حیران کن لگتی ہے۔ دہرائے جانے والے کاموں کی خودکار انجام دہی کو ہمیشہ ایک مثبت پہلو سمجھا گیا ہے لیکن مینس کسی معاون کے بجائے ایک مکمل آزاد اے آئی کے طور پر ابھرا ہے۔

مثال کے طور پر چینی ٹیک رائٹر روون چُنگ نے مینس کا تجربہ کرنے کے لیے اسے اپنی سوانحِ حیات لکھنے اور ذاتی ویب سائٹ بنانے کا کام دیا۔ چند ہی منٹوں میں مینس نے سوشل میڈیا سے معلومات حاصل کیں، پروفیشنل ہائی لائٹس نکالیں، ایک مناسب سوانحِ حیات تیار کی، کوڈ لکھ کر ایک مکمل ویب سائٹ بنائی اور اسے آن لائن ڈپلائے بھی کر دیا۔ حتیٰ کہ ویب ہوسٹنگ کے مسائل بھی بغیر کسی اضافی ہدایات کے خود حل کر لیے۔

سلیکون ویلی کے لیے ایک دھچکہ

اب تک اے آئی کی ترقی میں امریکی کمپنیوں جیسے اوپن اے آئی، گوگل اور میٹا کا غلبہ رہا ہے۔ عمومی تاثر یہی تھا کہ جو کمپنی سب سے زیادہ جدید چیٹ بوٹ بنائے گی، وہ اے آئی کے مستقبل پر راج کرے گی لیکن مینس نے اس تصور کو چیلنج کر دیا ہے۔

یہ محض موجودہ اے آئی ماڈلز کا بہتر ورژن نہیں بلکہ ذہانت کی ایک نئی شکل ہے۔ یہ معاون سے خودمختار فیصلہ ساز کی طرف ایک زبردست قدم ہے اور یہ مکمل طور پر چین کی تخلیق ہے۔

یہی وجہ ہے کہ فوربز کے مطابق سلیکون ویلی میں بےچینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اے آئی ماہرین تسلیم کر رہے ہیں کہ چین کا خود مختار اے آئی کی جانب جارحانہ پیش قدمی اسے صنعتی شعبے میں سبقت دے سکتی ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ مینس ذہانت کی صنعتی پیداوار کا آغاز ہے، ایک ایسا نظام جو اتنا موثر ہے کہ کمپنیاں مجبوری میں انسانی مزدوروں کو اے آئی سے تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائیں گی۔

ضوابط، اخلاقیات اور خودمختاری کی الجھن

لیکن مینس کئی سنگین اخلاقی اور قانونی سوالات بھی کھڑا کرتا ہے۔ اگر کوئی اے آئی ایجنٹ ایسا مالی فیصلہ لے جو کسی کمپنی کو کروڑوں کا نقصان پہنچا دے تو ذمہ دار کون ہوگا؟ اگر یہ کوئی غلط فیصلہ کر کے اسے نافذ کر دے اور حقیقی دنیا میں جانی یا مالی نقصانات ہو جائیں تو جواب دہی کس کی ہوگی؟

چینی حکام، جو اے آئی کے تجرباتی اطلاق میں زیادہ لچکدار سمجھے جاتے ہیں، ابھی تک اے آئی کی خودمختاری پر واضح قوانین مرتب نہیں کر سکے۔ دوسری طرف، مغربی ممالک کے قوانین اس مفروضے پر قائم ہیں کہ اے آئی کو ہمیشہ انسانی نگرانی درکار ہوگی لیکن مینس نے اس بنیادی اصول کو ہی توڑ دیا ہے۔

لیکن اس سب کے باوجود آج کی حقیقت یہی ہے کہ خود مختار اے آئی ایجنٹس کا دور شروع ہو چکا ہے اور اس دوڑ میں چین سب سے آگے ہے۔ اب دنیا کو دوبارہ سوچنا ہو گا کہ کام، تخلیق اور مقابلے کا مطلب کیا ہے کیونکہ اب ذہانت صرف انسانوں تک محدود نہیں رہی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی