بالی وڈ پروڈیوسرز ایسے فلمی نام کے حقوق محفوظ کروا رہے ہیں جن سے پاکستان کے ساتھ حالیہ چار روزہ جھڑپ کے بعد ابھرنے والے حب الوطنی کے جذبات سے مالی فائدہ اٹھایا جا سکے۔
پہلگام حملے کے بعد رواں سال مئی میں دونوں ممالک کے درمیان عسکری جھڑپیں ہوئیں جس سے دونوں جوہری طاقتیں ممکنہ خوفناک جنگ کے قریب پہنچ گئی تھیں۔
یہ لڑائی اُس وقت رکی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک جنگ بندی کا اعلان کیا۔ اب کچھ بالی وڈ فلم ساز اس فوجی جھڑپ کو نفع بخش موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
انڈیا نے پاکستان کے خلاف اپنی فوجی کارروائی کو ’آپریشن سندور‘ کا نام دیا۔ یہ نام 22 اپریل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے حملے کی بیواؤں سے اظہارِ یکجہتی اور انڈیا کے انتقامی جذبے کی علامت کے طور پر دیکھا گیا۔
بالی وڈ میں فلمی اداروں نے کئی فلمی نام رجسٹر کروائے ہیں جن میں ’مشن سندور‘، ’سندور: دا ریونج‘، ’دا پہلگام ٹیرر‘ اور ’سندور آپریشن‘ شامل ہیں۔
ہدایتکار وویک اگنی ہوتری کا اس بارے میں کہنا ہے: ’یہ ایک ایسی کہانی ہے جو سنائی جانی چاہیے۔ اگر یہ ہالی وڈ ہوتا تو وہ اس پر دس فلمیں بنا چکے ہوتے۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ پردے کے پیچھے کیا ہوا۔‘
ہندو قوم پرست اگنی ہوتری کی 2022 میں ریلیز ہونے والی فلم دی کشمیر فائلز، جو 1990 کی دہائی میں کشمیری ہندوؤں کی نقل مکانی پر مبنی تھی، باکس آفس پر کامیاب رہی تھی۔
پاکستان مخالف اور سیاسی رنگ میں ڈھلی کہانیاں
ہندو انتہا پسند حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس فلم کی بھرپور حمایت کی تھی حالانکہ بعض حلقوں نے اسے انڈیا کی مسلم اقلیت کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش قرار دیا۔
تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ 2014 میں ہندو قوم پرست نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے بالی وڈ میں ان کی حکومت کے نظریات کے پرچار میں تیزی آئی ہے۔
فلم نقاد اور سکرین رائٹر راجہ سین نے کہا کہ فلم ساز موجودہ حکومت کی ہم آہنگ پالیسیوں کے باعث خود کو زیادہ بااختیار محسوس کرتے ہیں۔
انہوں نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ جھڑپ پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے جنگ چھیڑنے کی کوشش کی اور پھر صدر ٹرمپ کے کہنے پر پیچھے ہٹ گئے۔ اس میں بہادری کہاں ہے؟‘
فلم ساز انیل شرما، جو قوم پرستانہ فلموں کے لیے مشہور ہیں، نے پہلگام حملے پر فلمیں بنانے کی دوڑ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا: ’یہ بھیڑ چال ہے، یہ موسمی فلم ساز ہیں، ان کی اپنی حدود ہیں۔ میں کسی واقعے کے انتظار میں نہیں بیٹھتا کہ وہ ہو اور پھر فلم بنا دوں۔ ایک موضوع خود دل کو چھوئے، تب جا کر سنیما بنتا ہے۔‘
انیل شرما کی 2001 میں ریلیز ہونے والی ’غدر: ایک پریم کتھا‘اور 2023 میں اس کا سیکوئل ’غدر ٹو‘ دونوں میں سنی دیول نے مرکزی کردار ادا کیے، بڑی ہٹ ثابت ہوئیں۔
بالی وڈ میں اکثر فلم ساز قومی دنوں جیسے یوم آزادی یا یوم جمہوریہ کے موقع پر اپنی فلمیں ریلیز کرتے ہیں تاکہ حب الوطنی کے بڑھتے جذبات سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
مثال کے طور پر ہریتک روشن اور دپیکا پڈوکون کی فلم ’فائٹر‘ انڈیا کے یوم جمہوریہ سے ایک دن پہلے 25 جنوری کو ریلیز ہوئی۔
مسلم مخالف تعصب
اگرچہ فلم ’فائٹر‘ مکمل طور پر حقائق پر مبنی فلم نہیں تھی لیکن اس میں 2019 میں انڈیا کی جانب سے پاکستان کے بالاکوٹ پر کیے گئے فضائی حملے کی جھلکیاں موجود تھیں۔
فلم کو کامیابی ملی اور اس نے انڈیا میں دو کروڑ 80 لاکھ ڈالر کمائے، جو اس سال کی چوتھی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی ہندی فلم بنی۔
اسی سال ریلیز ہونے والی فلم ’چھاوا‘، جو مراٹھہ سلطنت کے حکمران سمبھاجی مہاراج کی زندگی پر مبنی تھی، سال کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم بنی لیکن اس پر بھی مسلمانوں کے خلاف تعصب پھیلانے کے الزامات لگے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
راجہ سین کا کہنا ہے: ’یہ ایسے وقت میں ہے جب سنیما میں مسلمان بادشاہوں اور مسلم رہنماؤں کو جارح اور خونخوار انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ موقع ہے جب کہانی سنانے والوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کون سی کہانیاں چن رہے ہیں۔‘
سین نے مزید کہا کہ فلم ساز حکومت مخالف موضوعات سے گریز کرتے ہیں۔
ان کے بقول: ’اگر عوام کو بار بار ایک ہی ایجنڈا پر مبنی فلمیں دکھائی جائیں اور دوسرا پہلو سننے ہی نہ دیا جائے، تو وہ پروپیگنڈا اور غلط معلومات عوامی ذہن میں بیٹھ جاتی ہیں۔‘
معروف ہدایتکار راکیش اوم پرکاش مہرا کا کہنا ہے کہ حقیقی حب الوطنی یہ ہے کہ سنیما کے ذریعے امن اور ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔
ان کی 2006 کی فلم ’رنگ دے بسنتی‘ نے نیشنل فلم ایوارڈ برائے بہترین عوامی فلم جیتا اور گولڈن گلوب اور آسکر کے لیے انڈیا کی جانب سے نامزد ہوئی۔
انہوں نے سوال اٹھایا: ’ہم امن تک کیسے پہنچ سکتے ہیں اور ایک بہتر معاشرہ کیسے بنا سکتے ہیں؟ ہم اپنے پڑوسیوں سے محبت کرنا کیسے سیکھ سکتے ہیں؟ میرے لیے یہی حب الوطنی ہے۔‘