انڈین پارلیمان میں یہ منظر شاید پہلی بار دیکھا گیا جب بحث کا موضوع پاکستان تھا مگر حکمران جماعت کے لیڈر نے اس پر نشانہ سادھ کر اس کا محال ہی نام لیا جبکہ اپوزیشن رہنما بار بار پاکستان کا نام لیتے رہے اور ماضی میں اس کے دو ٹکڑے کرنے پر سابق وزیراعظم کی ہمت کو جتاتے رہے۔
اندرا گاندھی کی جرات کی داد دیتے ہوئے راہل گاندھی نے وزیراعظم مودی کی غیرت کو للکارا اور انہیں صلاح دی کہ وہ بھی اندرا گاندھی کی آدھی ہمت جٹا کر پاکستان کو سبق سکھا سکتے تھے اگر آپریشن سندور کے دوران اپنی افواج کے ہاتھ پیچھے سے باندھے نہ ہوتے۔
مودی حکومت نے پاکستان پر حملہ کرنے سے پہلے واضح کیا تھا کہ اس نے اپنی افواج کو کھلی آزادی دے دی ہے کہ وہ خود وقت اور ٹھکانوں کا تعین کرے مگر پھر فوجی قیادت سے سنا گیا کہ حکومت نے پاکستان کے دفاعی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے سے روکا۔ پارلیمان کی بحث میں اپوزیشن کا پہلا سوال تھا کہ سیاسی قیادت نے جنگ شروع کر کے نہ تو جنگی شعور کا مظاہرہ کیا اور نہ ہمت دکھا کر پاکستان کو سبق سکھایا۔
بی جے پی نے انڈیا کے امیج کو نقصان کیوں پہنچایا؟ اپوزیشن نے پوچھا۔
بیشتر دفاعی مبصرین کہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کے مطالبے پر اگر آپریشن سندور پر انڈین پارلیمان میں بحث کی اجازت دے دی گئی تو اس میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو کیا قباحت ہے کہ وہ اپوزیشن کے سوالوں کا جواب دیتی جس کا مطالبہ بعض عوامی حلقوں نے بھی کیا ہے۔
اگرچہ فوجی قیادت نے وقتا فوقتا آپریشن سندور میں ہونے والی مشکلات، لڑاکا طیاروں کا نقصان، پاکستان چین کی شراکت داری اور جنگ بندی میں امریکی ثالثی کا ذکر کیا ہے مگر اس کے برعکس حکمران جماعت جنگ جیتنے کا جشن منا کر اسے ووٹ حاصل کرنے میں استعمال کر رہی ہے۔
کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں نے چار یا پانچ سوالوں کے جواب ہی مانگے ہیں اور وزیراعظم نریندر مودی کو پارلیمان میں آکر اس مطالبے کو پورا کرنے پر زور دیا تھا مگر وہ آئے بھی اس وقت جب پارلیمان کے لیڈر راہل گاندھی نے حکمران جماعت کو دیوار سے لگا ڈالا تھا اور ان کی تقریر ختم ہو گئی تھی۔
بعد میں بعض میڈیا اداروں نے خبر دی کہ وزیراعظم پارلیمان کے دوسرے کمرے میں راہل کی تقریر سن رہے تھے۔
دنیا کے کسی رہنما نے انڈیا کو ’آپریشن سندور‘ روکنے کو نہیں کہا تھا: نریندر مودی
— Independent Urdu (@indyurdu) July 29, 2025
مزید تفصیلات: https://t.co/PgaieKBDSR pic.twitter.com/qGSRuSaPAE
کانگریس اور اپوزیشن کے رہنما راہل گاندھی نے مودی سے شدید لفظوں میں مطالبہ کیا کہ وہ ہمت کر کے پارلیمان میں امریکی صدر ٹرمپ کی جنگ بندی کرانے کے دو درجن سے زائد بیانات کو جھوٹا قرار دے تاکہ قوم کو پتہ چلے کہ انڈیا کی پالیسی آزاد اور خودمختار ہے جیسے 1971 میں بنگلہ دیش کی حصول آزادی کے وقت اندرا گاندھی نے امریکی امداد کو ٹھکرا کر اس کی تنبیہ کر دی تھی۔
وزیراعظم مودی نے لفظوں کے ہیر پھیر میں اس سوال کو گول کر دیا۔
اپوزیشن کا دوسرا بڑا الزام ہے کہ حکومت نے پاکستان کو حملہ کرنے سے پہلے آگاہ کیوں کیا اور پھر اپنی افواج کو پاکستان کے دفاعی تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کا حکم جاری کیوں کیا تھا جس کا جواب حکومت کو دینا ہو گا۔
یہ اصرار بھی بڑھتا جا رہا ہے کہ عوام کو جنگ میں ہونے والے نقصانات کی تفصیل سے جان بوجھ کر بے خبر رکھا جا رہا ہے جب کہ فوجی افسروں کی جانب سے نقصان کا کچھ کچھ اعتراف ہوا اور عالمی میڈیا اور دفاعی اداروں نے چار سے پانچ رافال لڑاکا طیارے گرنے کی تصدیق بھی کر دی۔
انڈین پارلیمان کے اس اجلاس میں اپوزیشن نے اس بات پر سب کی توجہ مرکوز کر دی کہ بی جے پی کے لیڈروں نے پہلگام حملے کی مذمت تو کی مگر پاکستان کا نام لینے سے گریز کرتے رہے۔
اپوزیشن نے پاکستان چین کی دفاعی شراکت داری کو انڈیا کی خارجہ پالیسی کی شکست سے تعبیر کیا جن کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کے لیے ماضی کی کانگریس سرکارنے اپنی خارجہ پالیسی ترتیب دے دی تھی۔ راہل گاندھی نے زور دے کر کہا کہ وزیراعظم اور وزیر دفاع چین کا نام لینے سے بھی کترا رہے ہیں۔ ’کیا ایسے ڈرپوک لیڈروں کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور ہونی چاہیے؟‘ راہل نے سوال کیا۔
اس بات کو انڈیا کے سیاسی اور دفاعی حلقوں میں شدید طور پر محسوس کیا گیا کہ جنگ کے فوراً بعد پاکستان کے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو ڈونلڈ ٹرمپ نے دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا اور ان کی تعریف کی جبکہ وزیراعظم مودی ٹرمپ کے جنگ بندی کرانے کے بیان کو رد کرنے یا ان کا نام لینے سے ڈرتے ہیں۔
راہل گاندھی نے کہا کہ کیا دنیائے سیاست اتنی بدل گئی ہے کہ ’پہلگام حملے کے ذمہ دار پاکستان کے جنرل منیر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ٹرمپ نے جنگ بندی کراکے انڈیا کو بچایا کیونکہ پاکستان شدید حملہ کرنے کا ارادہ کرچکا تھا۔‘
اپوزیشن رہنماؤں کی دھواں دار تقاریر کے بعد پارلیمان میں مودی کا بے صبری سے انتظار کیا جا رہا تھا کہ وہ اپوزیشن کے سوالوں کا جواب دے کر آپریشن سندور کی اس بحث کو ختم کریں گے۔ انہوں نے حالیہ جنگ میں انڈیا کی کامیابی جتا کر سب کو چپ کرا دیا۔
مودی کی تقریر میں پاکستان کا نام نہیں تھا مگر دہشت گردی اور دہشت گردوں کے آقا کا بار بار ذکر کر کے وہ پاکستان کو نشانہ بنا رہے تھے اور کانگریس کو پاکستان کا ترجمان بتا کر پارٹی کے امیج کو مسخ کرنے کے درپے تھے۔
اپوزیشن نے عوام کے دماغ میں یہ سوال تو ڈالا کہ جس لیڈر میں سیاسی جرات نہیں، بلکہ جنہیں ملک کے مقابلے میں اپنی امیج اور شخصیت سب سے عزیز ہے اس کو سوا ارب آبادی پر حکومت کرنے کا کیا کوئی حق بنتا ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بی جے پی کی حکومت میں شامل دو اتحادی جماعتیں تذبذب کا شکار ہیں کہ وہ آپریشن سندور میں بی جے پی کی پالیسی اور جنگی شعورکے باعث کہیں اپنے ووٹ بنک سے محروم نہ ہو جائیں۔
بہار میں بی جے پی کے اتحادی وزیراعلی نتیش کمار کی پوزیشن انتہائی کمزور بتائی جا رہی ہے جہاں عنقریب ہی ریاستی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ جنگ بندی کے فورا بعد وزیراعظم مودی بہار پہنچ گئے اور عوامی جلسے میں آپریشن سندور کی کامیابی جتا کر ووٹروں کو اپنی جانب مائل کرنے کی کوشش میں جٹے رہے۔
بی جے پی کو یقین ہے کہ وہ نہ صرف پورے پانچ سال حکومت کرتی رہے گی بلکہ 2047 تک وہ انڈیا کے تخت پر براجمان رہے گی جب ملک حصول آزادی کے سو سال کا جشن منائے گا۔ مگر اپوزیشن کی مودی کے خلاف مہم، آپریشن سندور میں تضادات اور ٹرمپ کی ثالثی کے باعث بی جے شدید دباؤ میں آ گئی ہے۔
پھر آر ایس ایس کے اندرونی حلقوں سے کچھ اشارے مل رہے ہیں کہ وہ مودی کے مقابلے میں ایک ایسے لیڈر کی تلاش میں ہیں جو ہندو راشٹر بنانے میں پہل کرے، بھلے ہی اس کے لیے مزید انتہا پسندی کا مظاہرہ کیوں نہ کرنا پڑے۔
بعض ہندو انتہا پسند جماعتوں کا ماننا ہے کہ ہندو راشٹر بنانے میں تیزی لانے کے لیے یہ وقت موزوں ہے کیونکہ جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے بیشتر ممالک اپنی جمہوریت کا جنازہ پڑھ رہے ہیں وہ انڈیا کی جمہوریت ختم ہونے پر شاید ہی کوئی اعتراض کرنے کے اہل ہوں گے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔