کینیڈا میں مقیم سکھ برادری کے وہ ارکان جنہیں مقامی پولیس نے خبردار کیا کہ ان کی جان خطرے میں ہے اور اس خطرے کی ذمہ دار انڈین حکومت ہے، نے کینیڈین حکومت کی جانب سے انڈین وزیر اعظم کو جی سیون اجلاس میں شرکت کی دعوت پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی نے نریندر مودی کو اتوار سے شروع ہونے والے اس سربراہ اجلاس میں بطور مہمان مدعو کیا حالانکہ انڈیا جی سیون کا رکن نہیں ۔ یہ مودی کا ایک دہائی بعد پہلا دورہ کینیڈا ہو گا اور سیاسی طور پر نووارد کارنی کے لیے ایک سفارتی امتحان بھی ہو۔
کینیڈا اور انڈیا کے تعلقات اس وقت سے کشیدہ ہیں جب سابق کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے 2023 میں انڈیا کی حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ 18 جون 2023 کو کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث ہے۔
مودی حکومت نے نجر کے قتل میں ملوث ہونے کی تردید کی اور کینیڈا پر سکھ علیحدگی پسندوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا۔
نجر کے دوست اور سکھ کارکن مونندر سنگھ نے انڈین وزیر اعظم کو جی سیون کے اجلاس میں شرکت کی دعوت پر کہا کہ ’لوگوں کی طرف سے میں نے جس لفظ کو سب سے زیادہ سنا وہ غصہ ہے۔‘
انہوں نے اور دیگر سکھ رہنماؤں نے ہفتے کو اوٹاوا میں احتجاج کرنے کا اعلان کیا۔
کارنی، جو اس وقت امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں، دیگر ممالک کے ساتھ اتحاد مضبوط کرنے اور کینیڈا کی برآمدات کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کارنی نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے انڈیا کو عالمی سپلائی چینز میں اس کی اہمیت کی وجہ سے مدعو کیا۔
انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے جمعرات کو ایک بریفنگ میں کہا کہ مودی اور کارنی کے درمیان ملاقات دونوں رہنماؤں کو دو طرفہ اور عالمی معاملات پر تبادلہ خیال اور تعلقات کو بہتر یا دوبارہ استوار کرنے کے مواقع فراہم کرے گی۔
سکھوں کو خطرات کا سامنا
برٹش کولمبیا میں مقیم مونندر سنگھ کے لیے یہ جواز بالکل بے معنی ہے۔ انہیں پولیس کی جانب سے کئی بار جان کے خطرے سے خبردار کیا گیا۔ 2023 میں ایک انتباہ کے بعد انہیں اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے کئی مہینے تک گھر سے دور رہنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ذاتی طور پر اور کمیونٹی کے لحاظ سے بھی یہ انتہائی توہین آمیز ہے۔ سکھوں کی زندگیاں اتنی اہم نہیں جتنی دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے جسے اس میز پر ہونا چاہیے؟‘
کارنی کے ترجمان نے اس پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس نے اکتوبر میں بتایا کہ انہوں نے سنگھ جیسے افراد کو، جو انڈیا سے الگ سکھ وطن کے قیام کے حامی ہیں، ایک درجن سے زائد خطرات سے آگاہ کیا۔
اکتوبر میں ٹروڈو کے دور حکومت میں کینیڈا نے چھ انڈین سفارت کاروں کو ملک بدر کیا۔ انہیں نجر کے قتل سے جوڑتے ہوئے اور الزام عائد کیا کہ انڈیا کی حکومت کینیڈا میں انڈین مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے قتل، بھتہ خوری، منظم جرائم کے استعمال اور خفیہ معلومات جمع کرنے جیسے اقدامات کر رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈیا نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے چھ کینیڈین سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا حکم دیا اور ان الزامات کو بے بنیاد اور سیاسی مقاصد پر مبنی قرار دیا۔ کینیڈا کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ان دھمکیوں کو مودی سے جوڑنے کے شواہد موجود نہیں۔
اس کشیدگی نے کینیڈا کی سکھ برادری، جو انڈیا کی سکھ اکثریتی ریاست پنجاب کے باہر سب سے رہنے والی بڑی برادری ہے، کو عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا۔
مونندر سنگھ نے کہا کہ مودی کی دعوت پر کچھ شرائط ہونی چاہیے تھیں۔
ان کے مطابق: ’ان سے کسی بھی ملاقات کی شرط یہ ہونی چاہیے تھی کہ مودی اور ان کی حکومت، جو کچھ سامنے آیا ہے اس کی ذمہ داری قبول کریں اور تعاون کریں، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔‘
کارنی نے صحافیوں کو بتایا کہ مودی نے ’قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بات چیت‘ پر رضامندی ظاہر کی
جیسوال نے کہا کہ انڈیا اور کینیڈا کے قانون نافذ کرنے والے ادارے بعض شعبوں میں تعاون جاری رکھیں گے۔
کینیڈا میں بعض کارکنوں اور سیاست دانوں نے کارنی پر الزام لگایا کہ وہ انسانی حقوق کی بجائے معاشی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں۔
تاہم ٹورنٹو میٹروپولیٹن یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر سنجے روپریلیا کا کہنا ہے کہ وزیراعظم محض حقیقت پسندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’(کارنی) کا بڑا نعرہ جب سے وہ عہدے پر آئے ہیں حقیقت پسندی ہے۔ اور یہ فیصلہ بھی حقیقت پسندی اور عملی سیاست پر مبنی ہے۔‘