کینیڈا اور انڈیا کی سفارتی کشیدگی کی وجہ ہردیپ سنگھ نجر کون؟

1997 میں پلمبر بننے کے لیے انڈیا سے کینیڈا منتقل ہونے والے نجر سکھوں کے علیحدہ وطن یعنی آزاد خالصتان کی تحریک کی ایک اہم شخصیت تھے جنہیں انڈیا دہشت گرد قرار دیتا تھا۔

خالصتان تحریک کے سرگرم رہنما ہردیپ سنگھ نجر جنہیں کینیڈا میں گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا (دا سکھ پریس ایسوسی ایشن)

کینیڈا اور انڈیا کے درمیان سفارتی عملے کی بے دخلی کے محور شخص ہردیپ سنگھ نجر کو رواں سال جون میں کینیڈا میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا اور ان کے قتل کی تحقیقات اب بھی جاری ہیں۔

18 جون کی شام 8:30 پر 45 سالہ نجر گرو نانک سکھ گردوارے کے باہر ایک گاڑی کے اندر زخمی حالت میں ملے تھے، انہیں کئی گولیاں ماری گئی تھیں۔

کینیڈین ویب سائٹ گلوبل نیوز کے مطابق: ’فروری 1997 میں پلمبر بننے کے لیے انڈیا سے کینیڈا منتقل ہونے والے نجر سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن یعنی آزاد خالصتان کی تحریک کی ایک اہم شخصیت تھے۔‘

لیکن انڈین حکومت کو وہ خالصتان ٹائیگر فورس (کے ٹی ایف) کے ’ماسٹر مائنڈ / فعال رکن‘ ہونے کے الزام میں مطلوب تھے، جسے بھارتی حکومت ’دہشت گرد گروپ‘ قرار دیتی ہے۔

انڈیا میں 1980 اور 1990 کی دہائی کے اوائل میں سکھ اکثریتی شمالی ریاست پنجاب میں انڈین حکومت اور سکھ علیحدگی پسندوں کے درمیان مسلح تصادم دیکھنے میں آیا تھا۔

شورش کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران نجر کے بھائی کو انڈیا میں پولیس نے گرفتار کر لیا۔ 1995 میں نجر خود بھی گرفتار ہوئے۔

کینیڈین ویب سائٹ گلوبل نیوز کے مطابق: ’انہوں نے امیگریشن حکام کے سامنے حلف نامے میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کے بھائی کے متعلق معلومات حاصل کرنے پر انہیں مارا پیٹا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے رشوت دی، اپنے بال چھوٹے کیے اور فرار ہو گئے۔‘

1997 میں نجر کینیڈا آئے اور دعویٰ کیا کہ انہیں انڈین پولیس نے مارا پیٹا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔

1998 میں ان کے پناہ گزین ہونے کے دعوے کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ ان کے امیگریشن ریکارڈ کے مطابق، انہوں نے ایک جعلی پاسپورٹ استعمال کیا جس میں ان کی شناخت ’روی شرما‘ کے طور پر درج تھی۔

انہوں نے نو جون 1998 کو اپنے حلف نامے میں لکھا کہ ’میں جانتا ہوں کہ اگر مجھے اپنے ملک انڈیا واپس جانا پڑا تو میری زندگی کو شدید خطرہ ہوگا۔‘

ان کی درخواست مسترد کر دی گئی اور 11 دن بعد نجر نے کینیڈا کے مغربی صوبہ برٹش کولمبیا (بی سی) کی ایک خاتون سے شادی کر لی جس نے انہیں اپنے شریک حیات کے طور پر نقل مکانی کرنے کے لیے سپانسر کیا۔

ان کے درخواست فارم پر ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ کسی ایسے گروپ سے وابستہ ہیں جو ’سیاسی، مذہبی یا سماجی مقاصد کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد یا تشدد کرتا ہے یا اس کی وکالت کرتا ہے۔‘

انہوں نے کہا ’نہیں‘ لیکن امیگریشن حکام نے اسے سہولت کی شادی قرار دے کر نجر کی درخواست مسترد کر دی۔

نجر نے عدالتوں میں اپیل کی اور 2001 میں ہار گئے، لیکن بعد میں انہوں نے اپنی شناخت کینیڈین شہری کے طور پر بتائی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امیگریشن، ریفیوجیز اینڈ سٹیزن شپ کینیڈا نے پرائیویسی قانون کا حوالہ دیتے ہوئے گلوبل نیوز کو بیان دینے سے انکار کر دیا تھا۔

ہفتہ 24 جون 2023 کو وینکوور میں ہردیپ سنگھ نجر پر حالیہ فائرنگ کے خلاف احتجاج کے دوران مظاہرین نے قونصلیٹ جنرل آف انڈیا کے دفتر کے باہر نعرے لگائے۔

نجر برٹش کولمبیا کے شہر سرے میں پلمبنگ کے کاروبار سے وابستہ تھے اور ایک علیحدہ سکھ ملک خالصتان کے قیام کے ایک اہم حامی بن گئے۔

انہوں نے دنیا بھر کا سفر کیا اور خالصتان پر ریفرنڈم اور انڈیا میں سکھ مخالف تشدد کو ’نسل کشی‘ کے طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔

2014 میں انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد انڈین حکام نے نجر کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ نئی دہلی نے نجر کو عسکریت پسند گروپ خالصتان ٹائیگر فورس کا ’ماسٹر مائنڈ‘ قرار دیا۔

ان پر 2007 میں پنجاب کے ایک سینیما میں ہونے والے بم دھماکے میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ ان کے خلاف 2016 میں انٹرپول کے ایک نوٹس میں الزام لگایا گیا تھا کہ وہ اس حملے میں ’مرکزی سازشی‘ تھے۔ ان پر بھرتیوں اور فنڈ ریزنگ کا الزام تھا، جس الزام کی نجر نے سختی سے تردید کی تھی۔

نجر کے قتل کے بعد ان کے حامیوں نے وینکوور میں انڈین قونصل خانے کے باہر احتجاج کیا۔

سکھس فار جسٹس کے ڈائریکٹر جتندر سنگھ گریوال نے کہا کہ ’تشدد کی اس کارروائی کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا اور اس کی پیش گوئی کی جا رہی تھی۔ یہ ہمارے لیے ناقابل قبول ہے۔‘

نجر سے وابستہ کئی لوگوں نے کہا کہ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کی زندگی کو خطرہ ہے۔ نجر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انہیں دی جانے والی دھمکیوں کے بارے میں ’بہت کھل کر بات‘ کرتے تھے اور گوردوارے سے منسلک دیگر افراد کو بھی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

گذشتہ ہفتے سرے کے گرو نانک سکھ گوردوارے میں ایک ریفرنڈم منعقد کیا گیا، جس کے لیے نجر کام کرتے رہے ہیں۔

اس غیر رسمی اور غیر سرکاری ووٹ کا اہتمام سکھس فار جسٹس نے کیا تھا جو خالصتان ملک کی وکالت کرنے والا ایک گروپ ہے۔

اس گروپ کا اندازہ ہے کہ سرے میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے ووٹنگ میں شرکت کی۔

اُدھر کینیڈا کی نیو ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما جگمیت سنگھ نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہردیپ سنگھ کے قاتلوں کی گرفتاری اور نریندر مودی کے احتساب کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔

انڈین اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق کالعدم انڈین علیحدگی پسند گروپ سکھس فار جسٹس (ایس ایف جے) سے وابستہ نجر گرپتونت سنگھ پنون کے بعد ’نمبردو‘ کے عہدے پر فائز تھے۔

پنجاب پولیس کے ڈوزیئر کے مطابق ان کا تعلق جالندھر کے گاؤں بھرا سنگھ پورہ سے تھا۔

گذشتہ چند برسوں خالصتان نواز سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے ان کی دولت میں اچانک اضافہ دیکھا گیا۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق: ’نجر کی دہشت گردی میں شمولیت کا آغاز جگتار سنگھ تارا کی قیادت میں ببر خالصہ انٹرنیشنل کی رکنیت سے ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے خالصتان ٹائیگر فورس (کے ٹی ایف) کے نام سے اپنا گروپ بنایا۔‘

انہوں نے انڈیا میں خالصتانی سیلوں کی شناخت، رابطہ، تربیت اور مالی اعانت میں اہم کردار ادا کیا اور ان کے خلاف 10 سے زیادہ ایف آئی آر درج ہیں۔

ان پر الزام ہے کہ انہوں نے 2014 میں نجر نے خود ساختہ روحانی پیشوا بابا بھنیارا کے قتل کا منصوبہ بنایا تھا۔

2015 میں انہوں نے مندیپ سنگھ دھالیوال کو تربیت دینے کے لیے کینیڈا میں ایک تربیتی کیمپ کا انعقاد کیا تھا، جنہیں بعد میں شیوسینا رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے مشن کے ساتھ پنجاب بھیجا گیا تھا۔ مندیپ کو جون 2016 میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

ان پر الزام ہے کہ نومبر 2020 میں نجر گینگسٹر ارش ڈیلا کے ساتھی بنے جو بیرون ملک مقیم تھے اور وہ دونوں مل کر ڈیرہ سچا سودا کے پیروکار منوہر لال کے قتل میں ملوث ہوئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا