آپریشن سندور کے بعد حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی گوکہ خاموش بیٹھی ہے مگر وزیراعظم نریندر مودی اندرون ملک عوامی جلسوں میں اس کا خوب ذکر کررہے ہیں، مستقبل کا لاحہ عمل بتارہے ہیں اور پاکستانی نوجوانوں کو امن سے رہنے یا گولی کھانے کی وارننگ بھی دیتے رہے ہیں۔
بعض عوامی حلقوں میں پہلی بار مودی کے بیانات پر شدید ردعمل ظاہر ہو رہا ہے اور لگتا ہے کہ جنگ سے متعلق محدود انفارمیشن کی ترسیل پر خود بی جے پی کے بیشتر کارکن مطمئن نہیں لگ رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر مودی کو صلاح دی جا رہی ہے کہ وہ بی جے پی کے لیڈر کے بجائے سوا ارب آبادی والے ملک کے وزیراعظم کی زبان استعمال کریں اور قوم کو جنگ کی صیح صورت حال سے آگاہ کریں۔
ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جب وزیراعظم نے کہا کہ ان کی رگوں میں گرم سندور بہہ رہا ہے تو حزب اختلاف کے کئی رہنماوں نے اس کا تمسخر اڑایا اور ممتا بینرجی نے گھر گھر جاکر سندور باٹنے کی ممکنہ کارروائی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مودی پر ذاتی وار کیا۔
خبریں تھیں کہ بی جے پی نے گھر گھر جاکر مانگ میں سندور بھرنے کی تحریک شروع کرنے کا ایک منصوبہ بنایا تھا مگر بیشتر خواتین کے اعتراض پر کہ عورتیں صرف اپنے شوہر کی خاطر مانگ میں سندور کا استعمال کرتی ہیں اس تحریک کو واپس لینا پڑا۔
ممبئی میں ایک خاتون نے میڈیا کے سامنے کھُل کر کہا کہ ’ہم کسی غیر مرد کا سندور مانگ میں کیوں بھریں اور وہ بھی بی جے پی والوں کا جن میں اکثر اپنی پتنیوں کے بغیر رہتے ہیں۔‘
10 مئی کی فائر بندی کے بعد انڈیا میں عوام کا ایک حلقہ غصے میں نظر آرہا ہے، مودی کی تقریروں میں صرف سندور چھایا ہوا ہے اور اپوزیشن کے رہنماؤں نے جنونی اور جذباتی ماحول کے بدولت حکومت کو چلینج کرنے کی ہمت کی ہے۔
کانگریس اور اس کی کئی اتحادی جماعتیں پارلیمان کا خصوصی اجلاس بلانے پر زور ڈال رہی ہیں تاکہ عوام کو حملے کی مکمل تفصیلات، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ثالثی کی نشاندہی اور جنگ میں ہونے والے نقصانات کا احوال بتا دیا جائے۔
ابھی تک فوجی ترجمان یا پھر جنرل کمانڈنگ افسر انیل چوہان کی جانب سے جنگ کے دوران کی تھوڑی بہت تفصیل سامنے آئی ہیں جس پر ہندوتوا کے بعض ٹرولز نے ان کے خلاف مہم شروع کرکے نقصان کا اعتراف کرنے سے روکنے کی صلاح دی۔
کانگریس اور اپوزیشن کے پارلیمانی رہنما راہل گاندھی نے وزیراعظم پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی ہو یا آر ایس ایس، دونوں ہمیشہ سرنڈر کرتے رہے ہیں۔
مودی نے ٹرمپ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے جیسے ویر سوار کر نے انگریز سامراج کو خط لکھ کر جیل سے رہائی حاصل کی تھی۔
کانگریس اس بات پر خاصی چڑھی ہوئی ہے کہ اس نے سفارتی دوروں کے لیے ششی تھرور کا انتخاب نہیں کیا تھا جو کچھ عرصے سے مودی کی تعریفیں کرنے لگے ہیں مگرمودی سرکار نے انہیں بیرون ممالک بھیج کر کانگریس پارٹی میں اندرونی خلفشار پیدا کیا۔
بعض تبصروں میں پیش گوئی کی گئی کہ ششی تھرور عنقریب کانگریس سے علیحدگی اختیار کریں گے۔
آپ کو علم ہے کہ سیز فائر کے بعد بی جے پی کی سرکار نے آل پارٹی سات پارلیمانی وفود 32 ملکوں میں بھیج کر انڈیا کے بیانیے پر اعتماد حاصل کرنے کا سفارتی عمل شروع کیا ہے جس میں بعض واپس وطن پہنچ کر وزارت خارجہ میں آئے دن ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان وفود میں سر فہرست اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی، کانگریس کے سلمان خورشید، ششی تھرور، جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلی غلام نبی آزاد اور بی جے پی کے سینیئر رہنما ہیں۔
دو تین ملکوں کو چھوڑ کر بقیہ ملکوں نے پاکستان کے ساتھ باہمی مسایل حل کرنے کی انڈیا کوصلاح دی ہے۔
بقول تجزیہ نگار روہت بٹل ’انڈیا کی پوزیشن سفارتی سطح پر کمزور ہوگئی ہے، وجوہات میں روس اور یوکرین جنگ میں انڈیا کے کردار اور لداخ میں چینی پیش رفت کے باوجود مودی کا خاموش رہنا ہے جو امریکہ اور مغربی ملکوں کو کھلتا رہا ہے، پھر کینیڈا میں سکھ شہریوں کے خلاف جاسوسی اور انہیں قتل کرنے کی دھمکیاں دینا ان ملکوں نے اندرونی معاملات میں مداخلت سے تعبیر کیا ہے۔‘
روہت بٹل کہتے ہیں کہ بی جے پی کو امید تھی کہ آپریشن سندور کی کامیابی کو آئیندہ انتخابات میں استعمال کیا جائے گا مگر اچانک فائر بندی، ٹرمپ کی ثالثی اور مبینہ طور رافیل جہازوں کے گرنے سے عوامی حلقوں میں سخت مایوسی پھیل گئی ہے خاص طور سے بی جے پی کے ورکروں اور چاہنے والوں کو اس سب کی توقع نہیں تھی جو ابھی تک صدمے میں ہیں۔‘
شاید عوام کو امید دلائی گئی تھی کہ سرکار اگر کچھ نہیں تو کم از کم پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا کچھ حصہ حاصل کرے گی جس کا وعدہ مودی اور انکے وزرا نے پارلیمان کے فلور پر کئی مرتبہ دہرایا ہے۔
مگر جب دونوں کے مابین فضائی حملوں کی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائیرل ہوگئی تو کسی نے نقصان کا ادراک نہیں کیا تھا۔
تجزیہ نگار روہت بٹل کہتے ہیں کہ ’مودی کی شخصیت بے حد متاثر ہوگئی ہے ان کے کروڑوں چاہنے والوں کو مودی کی شخصیت ناقابل تسخیر لگ رہی تھی اور انڈیا کو نقصان ہونے کا یقین نہیں تھا مگر حالیہ حملے کی نوعیت نے اس تاثر کو کم کردیا۔‘
عوام کی نگاہیں اپوزیشن رہنماؤں پر ٹکی ہوئی ہیں کہ کیا وہ مودی اور ان کی سرکار کے لیے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں؟
کیا 2047 تک کے بی جے پی کی ہندو راشٹر بنانے کے منصوبے پر عمل درآمد کو روکا جاسکتا ہے، اور کیا مودی ستمبر میں 75 سال ہونے پر خود سرکار سے دستبردار ہوں گے جس کا خود انہوں نے بی جے پی کی لیڈرشپ کے لیے ریٹائر ہونے کی کسوٹی مقرر کر رکھی ہے۔
اس سب کا انحصار اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد پر ہوگا خاص طور سے کانگریس اور ترنمول کانگریس پر جس کے خلاف مودی نے اپنا مورچہ تیار رکھا ہے۔
اروند کیجریوال کی پارٹی آپ پہلے ہی اس وقت بکھراو کا شکار ہے۔
مودی کی مقبولیت بڑھنے یا کم ہونے کا صیح اندازہ بہار کے انتخابات سے لگایا جاسکتا ہے جہاں فائر بندی کے فورا بعد مودی نے جلسہ عام سے خطاب کرکے ووٹروں کو جذباتی بھڑکاو کی کوشش کی۔
حالانکہ کہا جارہا ہے کہ وہاں عوام نے کسی خاص دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
ستمبر میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت بھی 75 سال کے ہو رہے ہیں۔ اس تنظیم کو نئے سربراہ کا انتخاب کرنا ہوگا۔ بی جے پی کی قیادت کس کے ہاتھ میں دینے کا اہم سوال نئے سربراہ کا پہلا اہم چلینج ہوگا اور مودی کو برقرار رکھنے کا خاصا جواز پیش کرنا ہوگا۔
کیا مودی سرکار پارلیمان کا خصوصی اجلاس بلاکر آپریشن سندور کی تفصیلات عوام تک پہنچائی گی اس کا امکان ابھی مخدوش لگ رہا ہے، اس کے جواب میں پارلیمان کا مون سون سیشن 21 جولائی سے شروع ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔