پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے حملے پر جہاں بعض عالمی رہنماؤں نے انڈیا کے ساتھ یک جہتی میں مذمتی بیانات جاری کیے ہیں، وہیں اس حملے کے پیش نظر مقامی آبادی پر دہشت سی طاری ہو گئی ہے۔
بعض انتہا پسند میڈیا چینلوں نے کشمیریوں کے خلاف نفرت سے بھرپور مہم چلائی اور فوراً اپنی حکومت کو پاکستان کے خلاف جنگ کرنے اور اسے سبق سکھانے کی صلاح دے دی۔ پھر مختلف ریاستوں میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ کو ہراساں کیے جانے کی خبریں آنے لگیں، کئی تعلیمی اداروں نے انہیں وہاں سے نکلنے کا الٹی میٹم دیا ہے۔
بعض وائرل ویڈیوز میں انتہا پسند لاٹھیاں لے کر کشمیری نوجوانوں کا پیچھا کر رہے ہیں، انہیں پیٹ رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔
بعض چینلوں نے اس قدر زہر پھیلایا کہ کشمیر کے تمام ہوٹل، دکان اور راستے سیاحوں سے خالی ہو گئے حالانکہ پہلی بار ہر مکتبہ فکر سے وابستہ لوگوں نے اس حملے کے خلاف سڑکوں پر آ کر سیاحوں سے یک جہتی کا مظاہرہ بھی کیا۔
پاکستان میں بھی سوشل میڈیا پر جوابی حملے شروع ہو چکے ہیں اور حکومت سے ایکس پر پابندی اٹھانے کی مانگ ہو رہی ہے تاکہ سوشل میڈیا پر انتہاپسندوں کا توڑ کیا جا سکے۔
واضح رہے بی جے پی نے چند برسوں سے کشمیر تنازعے کا بیانیہ تبدیل کر کے اسے پاکستانی کشمیر پر مرکوز کر دیا ہے اور پاکستان سے کشمیر کا حصہ واپس لینے کی قسمیں دلائی ہیں۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمان میں کہا ہے کہ وہ جان کی بازی لگا کر پاکستان سے کشمیر کا حصہ واپس حاصل کریں گے، تب سے میڈیا کے ذریعے اس پر بحث و تمحیث تقریباً ہر چینل کا حصہ ہوتا ہے۔
سیاسیات کی پروفیسر انم افسرین کہتی ہیں کہ ’بی جے پی بہار انتخابات اور اگلے انتخابات جیتنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے، چاہے ملک میں خانہ جنگی ہی کیوں نہ ہو۔ پہلگام حملے نے اس کے لیے اب راستہ فراہم کر دیا ہے، میرے خیال میں دونوں ملکوں کے بیچ میں شدید ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’غزہ کے قتل عام اور اس پر عالم اقوام کی خاموشی نے بیشتر ملکوں کو ہٹ دھرمی کی شہ فراہم کی ہے، نریندر مودی نے شاید ٹرمپ کو بھی اعتماد میں لیا ہوگا حالانکہ یورپی ممالک کسی تیسری جنگ کے بلکل مخالف ہیں جو پہلے ہی دو جنگوں کی وجہ سے معاشی طور پر جھوجھ رہے ہیں۔‘
گو کہ انڈیا کے اندر ایک بڑا طبقہ جنگ کے خلاف ہے مگر جہاں تک اپوزیشن جماعتوں کا تعلق ہے وہ جنگ روکنے میں کوئی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گی کیونکہ وہ عوام کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتیں کہ وہ دشمن کے خلاف نہیں ہیں۔
جب بی جے پی نے مسجد توڑ کر مندر بنانے یا مندروں میں جا کر ہندو ثابت کرنے کی کسوٹی قائم کی تو اپوزیشن کے سیکیولر رہنماؤں کے لیے مندر جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں رکھا تاکہ وہ اپنے ووٹروں کو اپنے ہندو ہونے کا ثبوت دیں، اسی طرح اگر پاکستان کے خلاف کوئی اقدام کرنا ہے تو سوال کرنے کے بجائے حکومت کے ساتھ چل کر اپوزیشن کو حب الوطنی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ راہل گاندھی نے پہلے ہی حکومت کی کسی بھی پالیسی کا ساتھ دینے کا عہد کیا ہے۔
اس سارے پس منظر میں اگر کوئی مرتا ہے تو وہ کشمیری ہے جس پر ہر طرح سے مار پڑ رہی ہے۔
تین دہائیوں پر محیط پر آشوب دور نے اس کی معیشت، معاشرت اور سیاست تباہ کر دی ہے۔ چند برسوں کی قدرے خاموشی میں اس نے محسوس کیا تھا کہ وہ ماضی کو بھول کر ایک نئی زندگی کی تلاش کرے گا مگر شاید سکون کشمیر کی قسمت میں نہیں ہے۔
پہلی بار کشمیری حلقوں میں یہ سوال گشت کر رہا ہے کہ کیا یہ حملہ آور کشمیریوں کے خیر خواہ ہیں؟
بقول سوشل ایکٹوسٹ راجو مغل ’چھٹی سنگھ پورہ کا حملہ ہو یا پہلگام کا حملہ، ایسے حملوں نے خطے میں جاری حصول حقوق کی تحریک کو شدید زک پہنچایا ہے اور جو بھی یہ حملے کرتا ہے وہ کشمیری قوم کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔‘
وہ پوچھتے ہیں، ’یہ کون لوگ ہیں جو پرامن سیاسی حقوق کی تحریک کو اسلامی دہشت گردی کا لبادہ اوڑھنے پر مصر ہیں، یہ کون لوگ ہیں جو پرتشدد دور سے جھوجھ رہی ادھ مری قوم پر رحم بھی نہیں کرتے اور چند سانسیں لینے سے روکتے ہیں؟
جب سیاسی تحریک میں بندوق شامل ہوتی ہے تو وہ سیاست نہیں رہتی، دہشت گردی بن جاتی ہے گو کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں اپنے دفاع کے لیے اسلحہ استعمال کرنا دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا مگر بندوق کا اصول چونکہ مارنا اور مرنا ہے لہٰذا بندوق سے سیاسی تحریکوں کی کامیابی ناممکن ہوتی ہے۔
نیلسن مینڈیلا نے اپنی تحریک کے آغاز میں ہی محسوس کیا تھا کہ بندوق سے وہ کچھ حاصل نہیں کر سکتے بلکہ اپنے لوگوں کے لیے ہلاکت کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے چند روز بعد ہی بندوق کو ترک کر کے اپنی پر امن تحریک سے سب کچھ حاصل کر لیا جس کا انہوں نے خواب دیکھا تھا۔
1990 تک جموں و کشمیر میں آئینی اور سیاسی حقوق کے حصول کے لیے پر امن تحریک جاری تھی، جب اس کومسلح تحریک کی شکل دی گئی تو بربادیوں کی ایک لمبی داستان شروع ہو گئی جو اب تک محض جانوں کے زیاں سے رقم ہے۔
بےشمار حملوں کے دوران فوجی، سویلین، ہندو، مسلم اور سکھ سبھی مارے گئے مگر یہ پہلی بار ہوا کہ میڈیا رپورٹوں کے مطابق بندوق برداروں نے گولی مارنے سے پہلے مذہب پوچھا۔ کیا ہندو مسلم کے مابین اتنی نفرت گھر کر گئی ہے کہ قتل کرنے کی وجہ اب مذہب بن گیا ہے؟
اس کی مثالیں انڈیا کی کئی ریاستوں میں ہجومی ہندو انتہا پسندوں کی بھی ہیں جنہوں نے مارنے سے پہلے مذہب کے بارے میں پوچھا۔ یہ کیا سوچ پیدا ہوئی جو ہمارے خون کو آلودہ کر چکی ہے؟
مذہبی جنون ایک طرف، دوسری جانب عوامی طبقوں میں ان حملوں پر شکوک پائے جاتے ہیں۔
اس حملے کو کشمیریوں یا پاکستان کے کھاتے میں ڈالنے سے پہلے یہ سوال کیوں نہیں کیا جاتا کہ اتنی شدید سکیورٹی میں کوتاہی کہاں پر ہوئی ہے، اس طرح کا حملہ دوبارہ کیسے ممکن ہوا؟
ان حملوں کی آزاد میڈیا سے کبھی تحقیقاتی رپورٹ شائع کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی، انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو علاقے میں جاکر تحقیقات کرنے کی اجازت نہیں ملتی اور غیر سرکاری عالمی اداروں کا جائے واردات پر جانے کا منصوبہ سبوتاژ کیا جاتا ہے۔ ہر وقت ایک بیانیہ یا ایک سکرپٹ میڈیا کو دینا تاکہ ہفتوں چلا کر ایک ہی عوامی سوچ قائم کیا جا سکے۔
اندرونی خودمختاری ختم کرنے کے بعد عالمی سطح اور قومی سطح پر یہ بیانیہ بنایا گیا کہ خطے میں بندوق برداروں کا قلع قمع کیا گیا، لائن آف کنٹرول کو سیل کیا گیا اور آزادی پسند سوچ رکھنے والوں نے مین سٹریم دھارے میں شامل ہو کر ماضی کو بھلا دیا ہے مگر جب پہلگام والا حملہ ہوتا ہے تو اس وقت اس حملے کو کشمیریوں یا پاکستان کے کھاتے میں ڈالنے سے پہلے یہ سوال نہیں کیا جاتا کہ اتنی شدید سکیورٹی میں کوتاہی کہاں پر ہوئی ہے، اس طرح کا حملہ دوبارہ کیسے ممکن ہوا؟
ان ارباب اقتدار کو کیوں نہیں ذمہ دار ٹھہرایا جاتا جو اس خطے کو نارمل بنانے کا کریڈٹ لیتے رہے ہیں؟ جنونی جذبات ابھارنے کے بجائے اپنے اداروں کی بہتری پر توجہ مرکوز کیوں نہیں کی جاتی؟
عالمی برادری کو یقین دلایا گیا تھا کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں تحریک، دہشت اور بندوق ختم ہو گئے ہیں اور خطے میں تعمیر و ترقی ہو رہی ہے، مگر اچانک یہ کیا ہوا کہ اس طرح کا حملہ دوبارہ ہوا اور سیاحوں کا خون ناحق بہایا گیا۔ اس کی ذمہ داری عام شہریوں کے بجائے ان رہنماؤں پر کیوں نہیں ڈالی جاتی جو دن بھر ہندو مسلم کا راگ الاپ کر اس ملک کی بیخ کنی پر تلے ہوئے ہیں؟
کئی تھنک ٹینکس پریشان کن پیش گوئیاں کر رہے ہیں اور اس کے اثرات سے نہ صرف برصغیر کی جغرافیہ تبدیل ہونے کا امکاں بتایا جاتا ہے بلکہ کشمیری قوم کی رہی سہی ساکھ، ہیت اور تاریخ بھی ختم ہونے کا اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں جس کا روڈ میپ کئی دہائی پہلے شروع کیا جا چکا ہے۔
کشمیر جیسا خوبصورت مقام آج پھر ایک ایسے موڑ پر پہنچ گیا ہے جہاں اسے اپنا وجود، شناخت اور معاش حیات متزلزل لگ رہا ہے اور اگر دونوں ملکوں کے بیچ ٹکراؤ ہوتا ہے تو اس کا ملبہ بھی کشمیر پر گرے گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔