جمہوری دنیا کے باشعور اور باضمیر دانشوروں میں یہ سوچ گہری ہوتی جا رہی ہے کہ ’جمہوری اور آمرانہ نظام کے عین بیچ ایک نیا نظام ابھر رہا ہے جسے وہ انوکریسی کا نام دے رہے ہیں، اور جس میں آزادیِ تحریر و تقریر کا قافیہ تنگ ہوتا جا رہا ہے، قوانین یا عدلیہ ایک سرکولر کی ماتحت بن گئی ہے، اور ہر لیڈر یا سربراہ کی مخالفت غداری کے زمرے میں لائی گئی ہے۔
اس نئے نظام میں انسانی حقوق، رول آف لا اور میڈیا شدید عتاب کا شکار ہیں۔
باربرا والٹر اپنی کتاب How Civil Wars Start میں تفصیل سے امریکہ اور انڈیا کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’جو زور زبردستی، ہٹ دھرمی یا چودھراہٹ کی سوچ عامرانہ نظام کی نشاندہی کرتی تھی، وہ اب مختلف روپ میں ان جمہوریتوں میں ابھر رہی ہے اور جس کی پشت پر بظاہر ان ملکوں کی انتہا پسند سرکاریں ہیں۔‘
جہاں امریکہ میں غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف آواز اٹھانے والوں یا ٹرمپ کے مخالفین کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنے، تارکین وطن کو زنجیروں میں واپس وطن بھیجنے یا شہریت چھیننے کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، وہیں انڈیا میں اقلیتوں، بیشتر ایسے شہریوں پر قہر نازل ہے جو حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں یا پرتشدد واقعات پر سرکار کی پہلو تہی پر سوال اٹھاتے ہیں۔
حالیہ مثال اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمودآباد اور کشمیری نژاد پروفیسر نتاشا کول کی دی جا سکتی ہے، جنہیں سرکار پر تنقید کرنے کے الزام میں نشانہ بنایا گیا ہے۔
پروفیسر علی خان نے فیس بک پر ایک پوسٹ میں سوال اٹھایا تھا کہ اگر آپریشن سندور کی فوجی ترجمان کرنل صوفیہ قریشی کے خلاف بی جے پی کے رہنما وجے شاہ کے تضحیک آمیز بیان پر ہر جانب شور اٹھایا گیا، تو اس وقت یہ شور کہاں گیا جب عام مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا؟
بی جے پی کے رہنما اور پھر ہریانہ میں عورتوں کے کمیشن کی سربراہ نے پروفیسر کے بیان کو ملک دشمن قرار دے کر انہیں فوراً غداری کا سرٹیفیکیٹ دے دیا۔ سرکار نے انہیں گرفتار کر کے دانشور طبقے کو پیغام دیا کہ وہ ہوش کے ناخن لیں، ورنہ سوال کرنے یا آپریشن سندور پر کوئی بات کرنے کی سزا جیل ہو سکتی ہے۔
میڈیا تو ایسی خبروں کے لیے پہلے ہی تیار ہوتا ہے، وہ عدالت میں کیس پہنچنے سے پہلے ہی غداری کا فیصلہ سنا دیتا ہے۔ میڈیا کے اس کردار پر عالمی سطح پر تنقید بڑھتی جا رہی ہے۔
گوکہ پروفیسر علی کی گرفتاری پر دانشور طبقے نے کافی عرصے کی خاموشی کے بعد بات کرنے کی جرأت کی ہے، مگر ملک میں جنگی جنون اور نیشنلزم کے جذبے نے بظاہر سب کو خاموش رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔
بیشتر اپنا دامن بچانے میں لگے ہیں کیونکہ یو اے پی اے کے سخت قوانین نے خاموشی توڑنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑی ہے۔
12 سو سے زائد دانشوروں، معاشرتی کارکنوں اور پروفیسروں نے دستخطوں پر مشتمل ایک خط لکھا ہے جس میں پروفیسر علی کو فوری طور پر رہا کرنے کی مانگ کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنی پابندیوں اور دباؤ کے باوجود انڈیا کے اندرونی حلقوں میں یہ آوازیں شروع ہو گئی ہیں کہ بی جے پی کی سخت گیر پالیسی کا ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے، جنگ سے نقصانات کا جائزہ منظر عام پر نہیں لایا جا رہا ہے، جس کی مانگ اپوزیشن جماعتیں کر رہی ہیں، اور پاکستان سے حالیہ کشیدگی اور جنگ کے باعث کشمیر میں جذبہ آزادی دوبارہ سر ابھارنے لگا ہے۔ مگر چونکہ میڈیا پر جنگ جیتنے، خارجی امور کی فتح اور کشمیر کو دلی سے قریب لانے کی کامیابی کا جشن جاری ہے، لہٰذا پروفیسر علی یا نتاشا کول یا دوسرے متاثرین کے لیے بات کرنا بے معنی بن گیا ہے۔
لندن میں مقیم کشمیری نژاد پنڈت پروفیسر نتاشا پر اس وقت سے عذاب نازل ہے جب انہوں نے جموں و کشمیر کی اندرونی خودمختاری کے ختم ہونے کے فوراً بعد امریکی کانگریس میں بی جے پی کی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا اور کشمیریوں پر جاری ظلم و ستم کی ساری داستان عالمی فورم کو سنائی۔ گذشتہ برس جب وہ انڈیا اپنی ماں سے ملنے گئیں، تو انہیں بنگلورو ایئرپورٹ سے واپس بھیج دیا گیا۔ اب چند روز پہلے انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے پیغام دیا کہ ان کا او سی آئی منسوخ کر دیا گیا ہے، یعنی اب وہ انڈیا کی شہریت سے محروم کر دی گئی ہیں۔
مغربی بنگال اور مہاراشٹر میں درجنوں افراد کو سوشل میڈیا پوسٹ کرنے پر دھر لیا گیا، جو بقول ریاستی سرکاروں کے، ملک دشمنی کے برابر ہیں۔
حیدرآباد دکن کے صحافی اصغر علی کہتے ہیں کہ ’اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کرکے عوام کی آواز بند کر دی تھی، مودی نے بغیر ایمرجنسی کے میڈیا اور دانشوروں کو چپ رہنے کی صلاح دے دی ہے۔‘
ایک دہائی سے اب تک اقلیتیں ہی انتہا پسند ہندوؤں کے نشانے پر تھیں، حالانکہ بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے کئی ہندو بھی تشدد کا شکار یا جیلوں تک پہنچا دیے گئے ہیں، جن میں کئی طلبا رہنما یا میڈیا سے وابستہ کارکن جیلیں کاٹ رہے ہیں۔ لیکن اب وہ سب ملک دشمنی کے زمرے میں آ رہے ہیں جو سرکار سے سوال پوچھنے کی جرأت کرتے ہیں۔
جن بعض سیاست دانوں یا دانشوروں نے ہندو انتہا پسندوں کے ساتھ ہاتھ ملایا، انہیں سیاسی اور سماجی سطح پر کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس عمل کو بی جے پی کی واشنگ مشین سے تعبیر کیا ہے، جہاں شمولیت سے سارے گناہ دھل جاتے ہیں۔
سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا انڈیا میں جمہوریت کی تشریح بدل دی گئی ہے؟ کیا سرکار کی پالیسیوں پر تنقید کو ملک دشمنی سے تعبیر کیا جانا چاہیے؟ اور کیا عوام کے تحفظات کو منظر عام پر لانے والوں کو غدار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ کیا جمہوری ملک کے قوانین بدل گئے ہیں یا پھر ملک میں ایمرجنسی نافذ ہو گئی ہے؟
بی جے پی کے جس وزیر نے کرنل صوفیہ قریشی کو پاکستان کی بہن بتا کر اقلیتوں پر نشانہ سادھا، اس کو کسی نے غداری کا سرٹیفیکیٹ نہیں دیا، بلکہ ایکشن لینے کے لیے عدالت کو سامنے آنا پڑا۔ مگر پروفیسر علی کے فیس بک پوسٹ پر دو ایف آئی آر درج کیے گئے۔ سپریم کورٹ نہ ہوتی تو انہیں لمبے عرصے کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا۔
اصغر علی کہتے ہیں کہ ہندو مسلم کے اسی تضاد کی پروفیسر علی نے نشاندہی کی تھی، مگر جہاں جمہوریت میں عوامی سوچ کے لیے جگہ تنگ پڑ گئی ہے، وہیں انتہا پسندوں کی مذہبی جنونیت کو مسلط کرنے میں ہندو انتہا پسند سرکار پسِ پشت کھڑی نظر آ رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اصغر علی مزید کہتے ہیں کہ ’بی جے پی نے جس جن کو بوتل سے نکال کر اقلیتوں کے لیے کھلا چھوڑا تھا، وہ خود اب جنونیوں کو نگلنے لگا ہے، جب آپریشن سندور کی کامیابی یا ناکامی خود بی جے پی میں بحث کا حصہ بنی، باوجود اس کے کہ انتہا پسند کرنل صوفیہ کو بھی نشانہ بنانے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔‘
سوشل میڈیا پر ایک سابق کرنل اور شاعر جی ایم بیگ نے موجودہ صورت حال کی عکاسی یوں کی؛
وجے شاہ ایک راج نیتا ہے
کسی خاص پارٹی کا بیٹا ہے
اور
پروفیسر کی بھی خاص پہچان ہے
اس کا نام علی خان ہے۔
فیض احمد فیض کی نظم ہم دیکھیں گے جہاں پاکستان میں کئی عوامی تحریکوں کا سلوگن بن گئی ہے، وہیں اب انڈیا میں لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے گانے پر غداری کا الزام عائد ہو سکتا ہے۔
ناگپور پولیس نے چند روز پہلے ایک ثقافتی میلے میں نظم گانے والوں پر عوام کو اس وقت ملک دشمنی پر اکسانے کا الزام لگایا جب پاکستان کے ساتھ جنگ لڑی جا رہی تھی، اور عوام کو متحد رکھنے کی ہدایات دی جا رہی تھیں۔
اس بار کشمیریوں نے قدرے خاموشی اختیار کی اور سوشل میڈیا سے دور رہے، مگر خبروں کے مطابق تقریباً 90 نوجوانوں کو پرانے سوشل میڈیا پوسٹس پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ اور یہ ان تقریباً ڈھائی ہزار گرفتاریوں سے الگ ہیں جنہیں 22 اپریل کو پہلگام حملے کے بعد اسیر بنایا گیا تھا۔ ان میں سے بیشتر کو اب رہا کر دیا گیا ہے۔
باربرا والٹر کہتی ہیں کہ جو ممالک جمہوریتوں کی آڑ میں چودھری بن جاتے ہیں، اور عامرانہ مملکتیں انسانی آزادی کی باتیں کرتی ہیں، وہ دراصل اندرونی سطح پر خانہ جنگی کو ہوا دے رہی ہیں، جو چند برسوں میں ان ملکوں کی ساخت، شناخت اور سالمیت کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن جاتی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔