مصنوعی ذہانت تیزی سے ترقی کر رہی ہے، جہاں نئے حریف پرانے کھلاڑیوں کی برتری کو چیلنج کر رہے ہیں۔
چیٹ جی پی ٹی طویل عرصے سے جنریٹیو اے آئی میں عروج پر رہا ہے، لیکن ڈیپ سیک نے مقابلے کو مزید سخت کر دیا ہے۔
اپنی جدید نیچرل لینگویج پروسیسنگ صلاحیتوں اور سٹریٹجک سپورٹ کے ساتھ، ڈیپ سیک محض ایک چیٹ بوٹ نہیں بلکہ اے آئی کی دنیا کا ایک نیا رخ ہے، لیکن کیا یہ واقعی ایک اے آئی جنگ کی شروعات ہے؟
ڈیپ سیک بمقابلہ چیٹ جی پی ٹی: ایک نئی رقابت
ڈیپ سیک چین کا ایک طاقتور اے آئی ماڈل ہے، جس کا مقصد زبان کی مہارت، استدلال کی صلاحیت، اور ریئل ٹائم انفارمیشن حاصل کرکے چیٹ جی پی ٹی کا مقابلہ کرنا ہے۔
زیادہ تر اے آئی ماڈل اوپن اے آئی کے طریقے کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ڈیپ سیک مصنوعی ذہانت کی دنیا میں اپنی مخصوص جگہ بنانے کے لیے کئی مسابقتی فوائد رکھتا ہے جیسا کہ:
1۔ ڈیپ سیک خاص طور پر مینڈارن اور دیگر ایشیائی زبانوں میں مہارت رکھتا ہے، جس سے اسے چین اور ان خطوں میں برتری حاصل ہو سکتی ہے جہاں چیٹ جی پی ٹی کی رسائی محدود ہے۔
2۔ چیٹ جی پی ٹی میں بعض اوقات اے آئی ہیلوسینیشن (غلط یا گمراہ کن جوابات) کا مسئلہ ہوتا ہے جبکہ ڈیپ سیک پیچیدہ مسائل کے درست جوابات کا دعوٰی کرتا ہے۔
3۔ کچھ رپورٹس کے مطابق، ڈیپ سیک ممکنہ طور پر اوپن سورس ماڈل اپنا سکتا ہے، جیسے میٹا کی لاما LLaMA سیریز، جو ڈویلپرز کو اسے اپنی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کا موقع دے گا۔
چینی حکومت اے آئی کے میدان میں امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہی ہے، اور ڈیپ سیک اس عالمی ٹیکنالوجی کی دوڑ میں ایک سٹریٹجک ہتھیار بن سکتا ہے۔
ان خصوصیات کی بدولت، ڈیپ سیک براہ راست چیٹ جی پی ٹی کے تسلط کو چیلنج کر رہا ہے، جس سے اے آئی کی دنیا میں ایک نئے مقابلے کی فضا جنم لے رہی ہے۔ لیکن اس مقابلے کی نوعیت صرف ٹیکنالوجی تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک بڑی جغرافیائی اور سیاسی کشمکش کا حصہ بھی بن سکتا ہے۔
اگر ہم اس صورت حال کا تجزیہ کریں تو مندرجہ ذیل امکانات سامنے آتے ہیں:
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
۔ کئی سالوں تک اوپن اے آئی ڈیجیٹل ورلڈ میں سب سے آگے رہا، جبکہ گوگل کے جیمینائی اور میٹا کے لاما جیسے ماڈلز اس کا پیچھا کر رہے تھے، لیکن ڈیپ سیک ایک عام مدمقابل نہیں بلکہ چین کی اے آئی ترقی کا نتیجہ ہیں، جو بھاری سرمایہ کاری اور تحقیقی وسائل کے ساتھ آیا ہے۔
یہ اے آئی انڈسٹری کو مغرب سے نکال کر ایک عالمی مقابلے میں تبدیل کر رہا ہے۔
۔ اے آئی محض ایک تکنیکی جدت نہیں بلکہ ایک جغرافیائی سٹریٹجک ہتھیار بھی ہے۔
امریکہ اور چین پہلے ہی سیمی کنڈکٹرز، ڈیٹا سیکیورٹی، اور اے آئی ترقی کے معاملے میں ٹیک جنگ میں مصروف ہیں۔ امریکی پابندیوں کے باعث چین کو جدید چپس تک محدود رسائی حاصل ہے، اور ڈیپ سیک کی کامیابی یہ ثابت کرے گی کہ آیا چین خود عالمی معیار کا اے آئی بنا سکتا ہے یا نہیں۔
۔ اوپن آئی نے اب تک اے آئی کی دنیا میں برتری قائم رکھی ہے، لیکن ڈیپ سیک اسے مزید جدت کی جانب راغب کر رہا ہے۔
اگر چین کامیابی سے متبادل اے آئی ماڈلز تیار کرتا رہا، تو اوپن اے آئی کو چیٹ جی پی ٹی کی استدلالی صلاحیت، کثیرالسانی مہارت، اور درست معلومات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ اپنی برتری برقرار رکھ سکے۔
۔ اے آئی صرف ایک سافٹ ویئر نہیں، بلکہ یہ ڈیٹا کا ایک بڑا ذخیرہ بھی رکھتا ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان ڈیٹا سکیورٹی کے حوالے سے پہلے ہی تنازعات ہیں، اور اے آئی اس مسئلے کو مزید بپیچیدہ بنا سکتا ہے۔
۔ جس طرح سرد جنگ کے دوران امریکہ اور سوویت یونین نے جوہری ہتھیاروں میں سبقت لینے کی کوشش کی، اسی طرح اب اے آئی ایک نئی طاقت بن چکا ہے، جس ملک کے پاس سب سے زیادہ طاقتور اے آئی ہوگا، وہ دفاع، معیشت، اور پروپیگنڈہ میں برتری حاصل کر سکتا ہے۔
اگر ہم اے آئی مقابلے سے آگے دیکھیں، تو ڈیپ سیک امریکہ اور چین کے درمیان جاری جغرافیائی کشمکش میں فٹ بیٹھتا ہے، جو سرد جنگ 2.0 کو مزید کشیدگی کی جانب لے جا رہا ہے۔
۔ اے آئی بڑے پیمانے پر ڈیٹا پر انحصار کرتا ہے، اور اے آئی پر کنٹرول کا مطلب معلومات، بیانیے، اور اقتصادی طاقت پر کنٹرول ہے۔ اے آئی کی برتری کے لیے جاری سرد جنگ0۔2 نظریاتی اور تکنیکی غلبے کی کشمکش کی عکاسی کرتی ہے۔
۔ اے آئی صرف چیٹ بوٹس کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس کے سکیورٹی اور اقتصادی حوالے سے اہم پہلو بھی ہیں۔ جو ملک اے آئی میں برتری حاصل کرے گا، وہ انٹیلی جنس، سائبر اور ہائیبر ڈ جنگ، اور عالمی اثر و رسوخ میں بڑا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
یہ اے آئی کی جنگ کی شروعات ہے، اور ڈیپ سیک کی مقبولیت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اوپن اے آئی اب اکیلا غالب نہیں رہے گا۔
چیٹ جی پی ٹی کو عالمی سطح پر برتری حاصل ہے، لیکن ڈیپ سیک ایشیا میں سبقت حاصل کر سکتا ہے اور کئی اہم شعبوں میں اوپن اے آئی کو چیلنج کر سکتا ہے۔
ڈیپ سیک صرف ایک اور اے آئی ماڈل نہیں ہے بلکہ یہ چین اور مغرب کے درمیان بڑھتی ہوئی دراڑ کی علامت ہے جو ایک بڑی جغرافیائی سیاسی جنگ کا ایک اہم پہلو ثابت ہو سکتا ہے۔
اگرچہ یہ مقابلہ ابھی تک براہ راست تصادم میں تبدیل نہیں ہوا، لیکن یہ نئے قسم کے مقابلے کو ہوا دے رہا ہے، جہاں اے آئی عالمی طاقت کے حصول کا ایک اہم میدان بن چکا ہے۔ بالآخر، کامیابی کا انحصار جدت اور جغرافیائی حکمت عملی پر ہو گا۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔