عالمی تنازعات کی نگرانی کرنے والی بین الاقوامی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے غزہ اور مغربی کنارے میں اپنی افواج کے مبینہ جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق 10 میں سے نو تحقیقات کسی پر الزام لگائے یا کسی کو بھی قصور وار ٹھہرائے بغیر ہی بند کر دیں۔
’ایکشن آن آرمڈ وائلنس‘ (اے او اے وی) کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل نے غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں اپنی افواج کی جانب سے کیے گئے مبینہ جرائم کی 88 فیصد تحقیقات بغیر کسی پر الزام عائد یا غلطی کے اعتراف کے بند کر دی ہیں۔
اس تنظیم نے اکتوبر 2023 سے جون 2025 کے درمیان پیش آنے والے 52 ایسے واقعات کا جائزہ لیا، جنہیں یا تو اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) نے خود تسلیم کیا یا بین الاقوامی میڈیا میں رپورٹ کیا گیا۔ ان واقعات میں مجموعی طور پر 1303 فلسطینیوں کی اموات، 1880 کے زخمی ہونے اور دو تشدد کے الزامات شامل تھے۔
تنظیم کے مطابق صرف ایک کیس ایسا تھا جس میں سزا ہوئی جب فروری 2025 میں ’سدے تیمن‘ نامی حراستی مرکز میں قیدیوں پر تشدد کی ویڈیو منظرِ عام پر آنے پر ایک ریزرو فوجی کو سات ماہ کی قید سنائی گئی تھی۔
دیگر پانچ تحقیقات میں خلاف ورزیوں کا اعتراف تو کیا گیا لیکن صرف داخلی سرزنش پر اکتفا کیا گیا۔ باقی 46 کیسز میں سے سات مکمل طور پر بند کر دیے گئے اور 39 اب بھی التوا کا شکار ہیں جسے اے او اے وی نے ’سزا سے بچ نکلنے کے ایک منظم رجحان‘ کی علامت قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اے او اے وی کی ٹیم کے اراکین ایان اوورٹن اور لوکاس ٹسانتزوریس نے رپورٹ میں لکھا: ’یہ اعداد و شمار ایک ایسے نظام کو ظاہر کرتے ہیں جو اپنی افواج کو سنگین ترین اور عوامی طور پر سامنے آنے والے کیسز میں بھی جواب دہی سے بچاتا ہے۔‘
ان نمایاں کیسز میں سے جو اب بھی زیرِ تفتیش ہیں، میں فروری 2024 میں غزہ شہر میں آٹے کی قطار میں لگے کم از کم 112 فلسطینیوں کا قتل، مئی 2025 میں رفح کے خیمہ کیمپ پر حملہ، جس میں 45 افراد مارے گئے اور یکم جون کو 31 شہریوں کی اموات شامل ہیں، جو خوراک کی تقسیم کے ایک مرکز کی جانب جا رہے تھے۔
اسرائیلی فورسز کے مطابق ایسے تمام ’غیرمعمولی واقعات‘ جن میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا اندیشہ ہو، انہیں پہلے ایک مخصوص فیکٹ فائنڈنگ ٹیم دیکھتی ہے اور پھر ضرورت پڑنے پر انہیں ملٹری پولیس کو بھیجا جاتا ہے۔
اے او اے وی کی رپورٹ میں شامل ایک بیان میں اسرائیلی فورسز نے کہا: ’اسرائیلی افواج سے متعلق کسی بھی ممکنہ بدسلوکی، شکایت یا الزام کی ابتدائی جانچ پڑتال کی جاتی ہے، چاہے اس کی نوعیت یا ماخذ کچھ بھی ہو۔‘
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ نظام سست اور غیر شفاف ہے اور شاذونادر ہی کسی احتساب کا باعث بنتا ہے۔ اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم ’یش دین‘ نے اے او اے وی کو بتایا کہ 2014 سے 2021 کے درمیان غزہ سے متعلق 664 شکایات میں سے صرف ایک مقدمہ عدالت تک پہنچا۔
دی انڈپینڈنٹ کو دیے گئے ایک بیان میں اسرائیلی فورسز نے کہا: ’جنگ کے آغاز سے اب تک ملٹری پولیس نے متعدد ایسے واقعات کی تحقیقات شروع کی ہیں، جن میں قیدیوں کی اموات، ان سے غیر مناسب سلوک، قیدیوں کو عسکری کاموں میں استعمال کرنا، چوری، اسلحے کی چوری، املاک کی تباہی اور ناجائز طاقت کے استعمال جیسے الزامات شامل ہیں۔ ان میں سے بیشتر تحقیقات تاحال جاری ہیں۔‘
بیان میں مزید کہا گیا: ’مسلح تنازع کے دوران فوجی کارروائیاں عام طور پر شہری اموات، زخمیوں یا املاک کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ یہ نتائج ناپسندیدہ اور افسوسناک ضرور ہوتے ہیں لیکن بذات خود کسی مجرمانہ عمل کی معقول بنیاد نہیں بناتے جب تک کہ اضافی معلومات سے کوئی معقول شبہ پیدا نہ ہو۔‘
موجودہ جنگ کے ایک انتہائی حساس کیس میں اپریل 2024 کے ڈرون حملے کا ذکر کیا گیا ہے، جس میں خوراک کی عالمی تنظیم ’ورلڈ سینٹرل کچن‘ کے سات کارکن مارے گئے تھے، حالانکہ وہ تنظیم کے لیے مخصوص گاڑیوں میں سفر کر رہے تھے اور ان کی نقل و حرکت کی پیشگی اطلاع بھی دی گئی تھی۔
اسرائیلی فورسز نے بعد میں اسے ’سنگین غلطی‘ قرار دیا، دو افسران کو برطرف کیا اور دیگر کو سرزنش کی، مگر کوئی فوجداری کارروائی نہیں کی گئی۔
دی انڈپینڈنٹ کو دیے گئے اسرائیلی فورسز کے بیان میں کہا گیا کہ ایک مستقل، خودمختار ادارہ ’جنرل سٹاف فیکٹ فائنڈنگ اسیسمنٹ میکنزم‘ فوجی کارروائیوں کے دوران غیر معمولی واقعات کی جانچ کرتا ہے۔
بیان میں کہا گیا: ’آئرن سورڈز‘ نامی جنگ کے دوران اس میکنزم کو فعال کیا گیا تاکہ ان واقعات کا جائزہ لیا جا سکے جن میں انسانی امدادی اداروں کے اثاثوں یا کارکنان کو نقصان پہنچنے، بے گھر افراد کے شیلٹرز کو نقصان یا طبی اداروں اور عملے کو نشانہ بنانے کے الزامات شامل ہیں۔‘
بیان کے مطابق: ’اب تک، درجنوں کیسز کی جانچ مکمل ہو چکی ہے اور انہیں فوجی استغاثہ کے دفتر کو بھیج دیا گیا ہے۔‘
دوسری جانب اے او اے وی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ صرف جولائی 2025 میں ہی خوراک کی تقسیم کے مراکز کے قریب چار مہلک حملے ایسے تھے، جن کی تفتیش اب تک مکمل نہیں ہوئی۔
رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ’اسرائیل کی تحقیقات بین الاقوامی معیار پر پورا نہیں اترتیں اور نہ ہی آزاد، شفاف جنگی جرائم کی تحقیقات کے تقاضے پورے کرتی ہیں۔ یہ داخلی جائزے اسرائیل کو بیرونی قانونی جانچ سے بچنے کا موقع فراہم کرتے ہیں، جب کہ متاثرین انصاف سے محروم رہ جاتے ہیں۔‘
© The Independent