ہالی وڈ اداکار جارج کلونی کی اہلیہ اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی معروف سماجی کارکن ایمل کلونی نے مصنوعی ذہانت اور نئی ٹیکنالوجیز کی مدد سے خواتین اور لڑکیوں کے لیے انصاف تک رسائی آسان بنانے کے لیے ایک عالمی مرکز کا آغاز کیا ہے۔
پیر کی شب اس منصوبے کے افتتاح کے موقع پر اسے ایک ایسا اقدام قرار دیا گیا جس میں دنیا بھر میں زندگیوں کو بدلنے کی صلاحیت موجود ہے کیونکہ یہ انصاف کو صرف امیروں یا ان خوش قسمت افراد تک محدود نہیں رہنے دے گا جنہیں مفت میں وکیل میسر آ جاتے ہیں۔
یہ مرکز ’آکسفورڈ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ جسٹس‘ کے نام سے قائم کیا گیا ہے جو آکسفورڈ یونیورسٹی کے بلیویٹنک سکول آف گورنمنٹ اور کلونی فاؤنڈیشن فار جسٹس کے اشتراک سے بنایا گیا ہے۔ اس ادارے کا مقصد دنیا بھر میں انصاف سے متعلق مسائل کے حل کے لیے مصنوعی ذہانت کی طاقت سے فائدہ اٹھانا ہے۔
اپنے مقاصد کے تحت، یہ ادارہ ڈیجیٹل طور پر مفت قانونی معلومات کی فراہمی کو بڑھائے گا، اس بات کا جائزہ لے گا کہ ڈیجیٹل شواہد کو کس طرح محفوظ اور پیش کیا جا سکتا ہے، اور بین الاقوامی قانون کو فروغ دے گا، جس میں یہ رہنمائی تیار کرنا بھی شامل ہے کہ قانونی نظاموں میں مصنوعی ذہانت کو کیسے شامل کیا جائے۔
افتتاحی تقریب میں ایمل کلونی کے ساتھ خطاب کرتے ہوئے برطانیہ کے اٹارنی جنرل لارڈ ہرمر نے اسے ایک ’بے مثال موقع‘ قرار دیا۔
ایمل کلونی، جو انسانی حقوق کے میدان میں بین الاقوامی سطح پر پہچانی جاتی ہیں، لارڈ ہرمر کے ساتھ متعدد مقدمات میں کام کر چکی ہیں۔ لارڈ ہرمر گذشتہ سال سیاست میں آئے اور وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے انہیں اپنی کابینہ میں شامل کیا۔
تقریب کے دوران ایمل کلونی اور مائیکروسافٹ کے صدر بریڈ سمتھ کے ساتھ ایک پینل ڈسکشن میں لارڈ ہرمر نے کہا: ’مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی کا استعمال انصاف تک رسائی کو حقیقت میں وسعت دینے کا ایک بے نظیر موقع فراہم کرتا ہے، خاص طور پر ان خواتین کے لیے جن کی ہم نے نمائندگی کی ہے۔ اب انصاف صرف ان لوگوں کا حق نہیں رہے گا جو وکیلوں کو فیس دینے کی استطاعت رکھتے ہیں، یا جنہیں ایسے وکیل مل جاتے ہیں جو مفت میں ان کا مقدمہ لڑنے پر آمادہ ہوں۔ بااختیار ہونے کی صلاحیت لامحدود ہے اور یہی اس مرکز کے قیام کو اتنا متاثر کن اور پرجوش بناتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ انہیں قانون کی طاقت سے متاثرین کی آواز بلند کرنے کی اہمیت ایک ایسے مقدمے سے سمجھ میں آئی جو انہوں نے ایمل کلونی کے ساتھ مل کر لڑا تھا۔
ان کے بقول: ’یہ مقدمہ ان خواتین کی جانب سے تھا جو ملاوی کے ایک دیہی علاقے کے کھیتوں میں کام کرتی تھیں اور یہ دنیا کے خوبصورت مگر انتہائی غریب ممالک میں سے ایک ہے۔ ان خواتین کو منظم جنسی تشدد اور ہراسانی کا سامنا تھا اور انہیں کمتر درجے کے کاموں پر رکھا گیا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ تجربہ صرف ملاوی کی خواتین تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے بے شمار حصوں میں خواتین کی یہی حالت ہے۔ ہم نے اپنے کلائنٹس کے لیے شاندار نتائج حاصل کیے، ہمیں معاوضہ ملا، خواتین کے لیے ہیلتھ سینٹر قائم کیا گیا اور خواتین کو بااختیار بنانے کا ایک پروگرام شروع ہوا۔ یہ سب شاندار کامیابیاں تھیں، مگر یہ صرف متاثرہ خواتین کے ایک چھوٹے سے حصے کی مدد کر سکیں جبکہ دنیا بھر میں لاکھوں خواتین اسی طرح کی مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں، جن کے پاس قانونی تحفظ کا کوئی مؤثر ذریعہ نہیں۔‘
لارڈ ہرمر نے کہا: ’مجھے بے حد فخر ہے کہ اس انسٹی ٹیوٹ کا زیادہ تر اہم کام برطانیہ میں انجام پائے گا۔ ایک ایسا ادارہ جو ابھرتی ہوئی سائنس اور ٹیکنالوجی کے فوائد کو کمزور اور محروم طبقات کے مفاد میں استعمال کرنے کا خواہاں ہے، اس کے لیے برطانیہ بہترین مقام ہے۔ یہ ملک دو عظیم قومی روایات کو یکجا کرتا ہے یعنی سائنس کی ترقی اور بین الاقوامی قانون و انصاف کی ترویج۔‘
ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کے 2017 کے 45 ممالک کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 53 فیصد خواتین نے دو سال کے عرصے میں کسی نہ کسی قانونی مسئلے کا سامنا کیا لیکن ان میں سے صرف 13 فیصد نے کسی اتھارٹی یا تیسرے فریق سے مدد طلب کی۔
جن خواتین نے قانونی مسئلہ رپورٹ کیا ان میں سے 42 فیصد کو اس کے نتیجے میں معاشی یا ذاتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
© The Independent