گجرات: سپین پلٹ پاکستانی بہنوں کا ’غیرت‘ کے نام پر قتل

صوبہ پنجاب کے مشرقی شہر گجرات کی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ 24 سالہ انیسہ عباس اور 21 سالہ عروج عباس کے قتل کی تحقیقات کر رہی ہے، جو غیرت کے نام پر قتل کے سنگین واقعات کی تازہ ترین کڑی ہے۔

29 مئی 2014 کی اس تصویر میں اسلام آباد میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں(اے ایف پی)

پاکستانی پولیس صوبہ پنجاب کے شہر گجرات میں سپین پلٹ دو پاکستانی بہنوں کے قتل کی تفتیش کر رہی ہے جنہیں مبینہ طور پر ’غیرت کے نام‘ پر قتل کیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاکستان میں کئی خواتین کو پسند کی شادی کرنے اور ’خاندان کو بدنام‘ کرنے کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔

ایسی خواتین کو اکثر ان کے اپنے رشتہ دار قتل کر دیتے ہیں جو قدیم روایات کے مطابق اپنی خاندانی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے قانونی حدود سے باہر نکل کر کام کرتے ہیں۔

صوبہ پنجاب کے مشرقی شہر گجرات کی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ 24 سالہ انیسہ عباس اور 21 سالہ عروج عباس کے قتل کی تحقیقات کر رہی ہے، جو غیرت کے نام پر قتل کے سنگین واقعات کی تازہ ترین کڑی ہے۔

ایک پولیس ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’دونوں خواتین اپنے پاکستانی خاوندوں سے علیحدگی کی خواہاں تھیں اور انہیں سپین سے واپس گجرات بلایا گیا تھا جہاں جمعے کی رات انہیں گلا دبا کر اور گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔‘

گجرات پولیس کے ترجمان نعمان حسن کا کہنا تھا کہ ’خاندان نے انہیں چند دنوں کے لیے پاکستان آنے پر راضی کرنے کے لیے ایک کہانی بنائی تھی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ غیرت کے نام پر قتل کا معاملہ ہے، لیکن ابھی اور تفتیش جاری ہے۔‘

پولیس نے یہ بھی کہا کہ خواتین پر ان کے شریک حیات جو ان کے کزن بھی تھے، کی طرف سے ’دباؤ‘ تھا تاکہ ان کی سپین نقل مکانی میں مدد کی جا سکے۔

دونوں بہنوں کے خاندان کے سات افراد اس وقت قتل کے الزام میں پولیس کو مطلوب ہیں۔

ہفتے کے روز پاکستان میں سپین کے سفارت خانے سے اس سلسلے میں تبصرے کے لیے رابطہ کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔

دوسری جانب انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے مطابق گذشتہ سال غیرت کے نام پر ملک بھر میں قتل کے 450 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے۔

ایسے واقعات میں بعض اوقات مردوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن متاثرین میں زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں اور شبہ ہے کہ ایسے بہت سے کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین