رواں ہفتے پاکستان کے ایک صف اول کے روزنامے میں ایک خبر ایسی چھپی جس کا اختتام مشینی زبان میں ہوا۔ مصنوعی ذہانت کے دور میں یہ معصوم لرزش تو ہوسکتی ہے لیکن سنگین غلطی ہر گز نہیں۔
یہ 2023 کا سال تھا، دنیا تیز رفتاری سے روز کسی نئی سمت چل پڑتی ہے اس لیے لکھنا پڑا کہ یہ 2023 کا سال تھا۔
جب میں ناروے کی یونیورسٹی میں اپنی کلاس کی واحد طالبہ تھی جو کاغذ قلم استعمال کرتی تھی۔ اگرچہ سامنے لیپ ٹاپ ہوتا تھا لیکن مجھے لگتا تھا کہ جو ہاتھ سے لکھوں گی وہ پکا ذہن نشین ہو گا بلکہ بہتر سمجھ آئے گا۔
جدید ٹیکنالوجی سے واقفیت کے باوجود کاغذ قلم کے استعمال پہ مُصر رہنا ہم 30، 40 برس پرانی نسل کی مجبوری ہے کیونکہ ہماری انگلیوں، ہاتھوں، قوت لامسہ، حافظہ اور دماغ کے اُلٹے سیدھے اور درمیانی حصے سب کو ہم نے یہی سکھایا ہے۔
لیکن ہم سے بعد میں آنے والے یکسر مختلف ہیں۔ وہ ہمیں ٹیکنالوجی کے ساتھ ٹامک ٹوئیاں مارتے دیکھتے ہیں۔
وہ دیکھتے ہیں کس روانی سے ہماری نسل نے موبائل فون، کمپیوٹر اور عام زندگی میں استعمال ہونے والے چھوٹے چھوٹے روبوٹس کو زیر کر لیا لیکن اس سب کے باوجود ٹیکنالوجی کے استعمال پہ آج بھی ہم میں ہچکچاہٹ باقی ہے۔
ڈیجیٹل دنیا کی گھمن گھیریوں پہ ہماری اکتاہٹ چھپائے نہیں چھپتی۔ ہمارے اندر اب بھی اینالوگ یعنی سوئیوں والی گھڑی جیسی سادہ مشین کے استعمال کا شوق موجود ہے۔
وہ لوگ جو فی زمانہ ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں، وہ تو ٹیکنالوجی سے بال بال بچ گئے۔انہوں نے فائلوں، کاپیوں، کاغذات، قلم دوات سے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا اور کام کی عمر سے ریٹائرڈ ہونے تک یہی وطیرہ رہا۔
لیکن ہم گذشتہ صدی کے آخری تین عشروں کی پیداوار عجیب مخمصے کا شکار ہیں۔ جو ابھی 50 سے 30 برس کی درمیانی عمر کے لوگ ہیں وہ بظاہر زندگی کے سب سے مصروف اور کارآمد سال گزر رہے ہیں لیکن اندر خانے کیا چل رہا ہے یہ ہم ہی جانتے ہیں۔
ہم میں سے اکثر ابھی تک ٹیکنالوجی کی نت نئی جہتوں سے متعارف ہونےکے لیے خود کو ذہنی طور پہ تیار کر رہے ہیں۔
ہماری ایک عزیز جو کوئی 50 برس کی ہوں گی، کینیڈا کے نظام صحت میں اہم عہدے پہ ہیں۔
اب تک ہماری درجن بار بحث ہوچکی ہے کہ وہ چیٹ جی پی ٹی خود بھی استعمال کر سکتی ہیں لیکن ان کو ڈر ہے کہ چیٹ جی پی ٹی ان کے دفتری کمپیوٹر سے کوئی دستاویز چرا لے تو وہ کسے ذمہ دار ٹھہرائیں گی؟
ہماری ایک ڈچ دوست تو ابھی تیس پینتیس کی ہوگی لیکن بہت کوشش کے باوجود وہ یوٹیوب سے کھانے کی ترکیب دیکھ کر بھی نہیں بنا پاتی۔
اسے آج بھی تصویروں کے ساتھ چھپنے والی کُک بُک پہ بھروسہ ہے۔اس کے خیال میں کُک بُک سند ہے کہ ترکیب اصل ہو گی۔
یہیں ناروے میں ہمارے ایک ملنے والے بھی لگ بھگ جوان ہی ہیں۔یہ اپنے گھر والوں کو آن لائن شاپنگ کی اجازت نہیں دیتے نہ خود انہیں آن لائن شاپنگ کا کوئی آئیڈیا ہے۔
یہ بیچارے نارویجن ٹیکس اتھارٹی میں ہیں اور سارا دن کمپیوٹر پہ ہی کام کرتے ہیں۔کی بورڈ پہ انگلیاں رواں چلتی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے اندر سے ٹیکنالوجی کا ڈر نہیں نکلا۔
مصنوعی ذہانت بالخصوص چیٹ جی پی ٹی کی مفت سہولت کی آمد ہوئی تو شروعات میں تعلیمی ادارے تیار نہ تھے۔
اس سے قبل کہ یونیورسٹیاں حصول علم میں مصنوعی ذہانت کے استعمال میں اپنا کوئی لائحہ عمل تیار کرتیں، لاکھوں طلبہ مصنوعی ذہانت کے زور پہ امتحانات پاس کرکے ڈگریاں بھی لے چکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آج مصنوعی ذہانت کی مدد سے ڈگریاں لینے والے نوجوان کہیں نہ کہیں کوئی کام کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ آج بھی اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں معمولی سے معمولی کام کے لیے مصنوعی ذہانت کا سہارا لیتے ہوں۔
لیکن اے آئی ٹیکنالوجی کا یہی تو اصل نکتہ ہے کہ وہ کام جو مشین پلک جھپکتے کر سکتی ہے اسے کرکے انسان اپنا قیمتی وقت اور محنت کیوں ضائع کرے۔
زمانہ قیامت کی چال چل رہا ہے۔ جنہیں ابھی نئی صدی کے بعد پیدا ہونے والی جین زی کے لچھن سمجھ نہیں آرہے انہیں خبر ہو کہ 2010کے بعد پیدا ہونے والی جین الفا جوان ہو چکی ہے اور جین بیٹا ابھی قطار میں ہے۔
یہ تمام نسلیں ٹیکنالوجی سے الجھنے کی بجائے اسے اپنا طرز زندگی بنا چکی ہیں۔
اس لیے ہم بیچ میں پھنسے ملینئلز یعنی گزری صدی کی آخری نسل کے پاس واحد راستہ بچا ہے کہ موئی ٹیکنالوجی کو اپنائیں اور ایک دوسرے کو ٹیکنالوجیکل غلطیاں کرنے کی مہلت دیں۔
ہم میں سے کوئی نام نہاد ذہین فطین اگر مصنوعی ذہانت کا استعمال کرے تو اسے معتوب نہ ٹھہرائیں، کل کو یہ وقت آپ پہ بھی آ سکتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔