روسی صدر ولادی میر پوتن نے جمعے کو نئی دہلی میں کہا کہ وہ انڈیا کو ایندھن کی ’بلاتعطل فراہمی‘ جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں، جبکہ نئی دہلی کو ماسکو سے تیل کی خریداری روکنے کے لیے شدید امریکی دباؤ کا سامنا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگست میں زیادہ تر انڈین مصنوعات پر 50 فیصد کے سخت ٹیرف نافذ کیے تھے، جس کی وجہ نئی دہلی کی جانب سے روسی تیل کی مسلسل خریداری بتائی گئی تھی، واشنگٹن کا موقف ہے کہ اس آمدنی سے یوکرین میں جنگ کی فنڈنگ میں مدد ملتی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نئی دہلی میں پوتن کی میزبانی کر رہے ہیں جہاں توانائی، دفاع اور تجارت کے مذاکرات نمایاں رہے۔ مودی نے روسی رہنما کا ’انڈیا کے بارے میں ان کے اٹل عزم‘ پر شکریہ ادا کیا۔
یوکرین جنگ کے بعد قریبی ساتھی ملک انڈیا کے اپنے پہلے دورے پر، پوتن کا گارڈ آف آنر اور 21 توپوں کی سلامی کے ساتھ سرخ قالین پر استقبال کیا گیا۔
مذاکرات کے بعد پوتن نے مودی سے کہا، ’روس تیل، گیس، کوئلے اور ہر اس چیز کا قابل اعتماد فراہم کنندہ ہے جو انڈیا کی توانائی کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔‘
سرکاری مترجم کے مطابق، انہوں نے مزید کہا، ’ہم تیزی سے ترقی کرتی ہوئی انڈین معیشت کے لیے ایندھن کی بلاتعطل ترسیل جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔‘
مودی نے کہا کہ ’انرجی سکیورٹی انڈیا روس شراکت داری کا ایک مضبوط اور اہم ستون رہی ہے‘، اور اگرچہ انہوں نے جوہری توانائی کا حوالہ دیا، لیکن انہوں نے تیل کا کوئی خاص ذکر نہیں کیا۔
یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد انڈیا روسی تیل کے ایک بڑے خریدار کے طور پر ابھرا، جس نے ماسکو کو ایک اہم برآمدی منڈی فراہم کی کیونکہ یورپ نے خریداری میں تیزی سے کمی کر دی تھی۔
سال 2024 میں روس نے انڈیا کی کل خام تیل کی درآمدات کا تقریباً 36 فیصد فراہم کیا، جو یومیہ تقریباً 18 لاکھ بیرل رعایتی تیل بنتا ہے۔
نئی دہلی نے حال ہی میں دباؤ کے تحت روسی خام تیل کی درآمدات میں کمی کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پوتن نے جمعے کو کہا کہ انہوں نے مودی کے ساتھ ’یوکرین میں ہونے والے واقعات کے بارے میں بہت سی تفصیلات‘ اور ان کوششوں کا تبادلہ کیا جو ماسکو ’امریکہ سمیت کچھ شراکت داروں کے ساتھ مل کر ممکنہ پرامن حل کے لیے‘ کر رہا ہے۔
مودی نے کہا کہ ’انڈیا نے ہمیشہ یوکرین کے حوالے سے امن کی حمایت کی ہے۔‘
’توازن قائم رکھنا‘
انڈیا سفارتی طور پر تنی ہوئی رسی پر چل رہا ہے، وہ سٹریٹجک روسی تیل کی درآمدات پر انحصار کر رہا ہے جبکہ واشنگٹن کے ساتھ جاری ٹیرف مذاکرات کے دوران ٹرمپ کو ناراض نہ کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔
روس میں سابق انڈین سفیر پنکج سرن نے جمعہ کو ٹائمز آف انڈیا میں لکھا، ’توازن قائم رکھنا انڈین خارجہ پالیسی سازی کی فطرت ثانیہ ہے۔‘
مودی نے پوتن کو ’میرے دوست‘ کہہ کر مخاطب کیا اور نئی دہلی اور ماسکو کے دیرینہ تعلقات کی تعریف کی۔
مودی نے حکام کی جانب سے ملازمتوں، صحت، شپنگ اور کیمیکلز پر مشتمل متعدد معاہدوں کے تبادلے کے بعد پوتن سے کہا، ’ہم نے 2030 تک اقتصادی تعاون کے پروگرام پر اتفاق کیا ہے۔‘
’یہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ہماری تجارت اور سرمایہ کاری متنوع، متوازن اور پائیدار ہو۔‘
دوطرفہ تجارت 2024-25 میں 68.7 ارب ڈالر تک پہنچ گئی، جو کہ وبا سے پہلے کی سطح سے تقریباً چھ گنا زیادہ ہے، لیکن انڈین برآمدات صرف 4.88 ارب ڈالر رہیں۔
کاروباری مشاورتی ادارے ’دی ایشیا گروپ‘ کے اشوک ملک نے اے ایف پی کو بتایا، ’یہ دورہ سٹریٹجک اور اقتصادی دونوں لحاظ سے انڈیا کی تنوع کی حکمت عملی کا حصہ ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب امریکی ٹیرف نے انڈیا کو نقصان پہنچایا ہے۔‘
انڈیا دنیا کے سب سے بڑے اسلحہ درآمد کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے، اور روس طویل عرصے سے اس کا بنیادی سپلائر رہا ہے۔
لیکن سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، نئی دہلی نے متبادل سپلائرز کی تلاش بھی کی ہے اور ملکی پیداوار کو بھی بڑھایا ہے، جس کے نتیجے میں انڈیا کی اسلحے کی درآمدات میں روس کا حصہ 2009-13 میں 76 فیصد سے کم ہو کر 2019-23 میں 36 فیصد رہ گیا ہے۔
جدید ترین دفاعی سازوسامان، جس میں فضائی دفاعی نظام، لڑاکا طیارے، اور جوہری آبدوزیں شامل ہیں، پر بات چیت کے علاوہ، نئی دہلی وسیع تر روسی مارکیٹ تک آسان رسائی کے لیے بھی زور دے گا۔
پوتن جمعے کو بعد ازاں ایک ریاستی ضیافت کے بعد اپنا دورہ ختم کریں گے۔