مودی نے ٹرمپ سے روسی تیل کی درآمد روکنے پر بات نہیں کی: انڈیا

ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ مودی نے انہیں یقین دلایا ہے کہ انڈیا روس سے تیل نہیں خریدے گا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی 25 فروری 2020 کو نئی دہلی میں حیدرآباد ہاؤس میں مشترکہ پریس کانفرنس کے لیے پہنچے (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

انڈیا کی وزارت خارجہ نے اس دعوے کی تردید کی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایسی کوئی گفتگو ہوئی جس میں نئی دہلی نے روسی تیل کی درآمد بند کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔

اس تردید نے ایک بار پھر یہ عندیہ دیا ہے کہ انڈیا ماسکو کے ساتھ معاشی تعاون کم کرنے کے دباؤ کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہیں۔

انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان اس موضوع پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔ انہوں نے مزید تبصرے سے گریز کیا۔

رندھیر جیسوال نے جمعرات کو کہا: ’جہاں تک میری معلومات ہیں، کل وزیراعظم مودی اور صدر ٹرمپ کے درمیان کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔‘ ان سے ٹرمپ کے دعوے کے بارے میں متعدد سوال پوچھے گئے تھے۔

یہ انڈین حکومت کا دوسرا ردعمل تھا، صدر ٹرمپ کے اس بیان کے بعد جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مودی ’نے مجھے آج یقین دلایا‘ کہ وہ روس سے تیل نہیں خریدیں گے۔ ٹرمپ نے اسے ’ایک بڑا قدم‘ قرار دیا تھا۔

ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں خوش نہیں تھا کہ انڈیا تیل خرید رہا ہے، اور اس نے مجھے آج یقین دلایا کہ وہ روس سے تیل نہیں خریدے گا۔ یہ ایک بڑا قدم ہے۔ اب مجھے چین کو بھی یہی بات منوانی ہے۔‘

ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ انڈیا فوری طور پر تیل کی شپمنٹس نہیں روک سکتا، اور یہ ’تھوڑا سا عمل‘ ہے لیکن ’یہ عمل جلد مکمل ہو جائے گا۔‘

انڈین حکومت نے ان بیانات کو تقریباً مسترد کرتے ہوئے کہا کہ روسی تیل کی خریداری کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ بات چیت ’ابھی جاری‘ ہے۔

حکومت کا کہنا تھا کہ ’موجودہ امریکی انتظامیہ نے انڈیا کے ساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون کو مزید گہرا کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے‘ اور بات چیت جاری ہے۔

مزید کہا گیا کہ انڈیا کی پالیسی اس کی ان کوششوں سے رہنمائی لیتی ہے جن کا مقصد ’غیر یقینی توانائی کے حالات میں انڈین صارف کے مفادات کا تحفظ‘ ہے، کیوں کہ ملک تیل اور گیس کی درآمد پر بھاری انحصار کرتا ہے۔

روس نے جمعرات کو کہا کہ اسے انڈیا کے ساتھ اپنی توانائی شراکت داری پر مکمل اعتماد ہے اور یہ تعاون جاری رہے گا۔

روسی نائب وزیرِاعظم الیگزینڈر نوواک کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنے دوستانہ شراکت داروں کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘ انہوں نے انڈیا کا حوالہ دیا۔

انہوں نے مزید کہا: ’ہماری توانائی کے وسائل کی طلب موجود ہے۔ معاشی طور پر فائدہ مند اور عملی ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہمارے شراکت دار ہمارے ساتھ کام جاری رکھیں گے، رابطے میں رہیں گے اور توانائی کے تعاون کو مزید فروغ دیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مغربی اتحادیوں جو انڈیا پر روسی توانائی پر انحصار کم کرنے کے لیے زور دے رہے ہیں، کے دباؤ کی وجہ سے نئی دہلی نے ایک نازک سفارتی توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے تاکہ روس کے ساتھ دیرینہ اور تاریخی تعلقات کو برقرار رکھا جا سکے۔

روس کئی دہائیوں سے انڈیا کا سب سے بڑا دفاعی فراہم کنندہ رہا ہے، جو لڑاکا طیارے، ہیلی کاپٹر، آبدوزیں اور میزائل سسٹمز فراہم کرتا آیا ہے، جب کہ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد دونوں ممالک کے توانائی تعلقات میں مزید وسعت آئی۔

یورپ کی جانب سے مسترد کیے گئے روسی خام تیل کی انڈیا کی طرف سے رعایتی نرخوں پر خریداری نے ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں انڈیا اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کی۔

ٹرمپ انتظامیہ نے روسی توانائی کی درآمد کے بدلے میں سزا کے طور پر انڈین مصنوعات پر 25 فیصد اضافی ٹیرف عائد کر دیا، جس سے  محصولات کی مجموعی شرح 50 فیصد تک پہنچ گئی جو کسی بھی ملک پر عائد کردہ سب سے زیادہ شرحوں میں سے ایک ہے۔

دوسری جانب برطانیہ کی حکومت نے تازہ پابندیوں کے اعلان کے بعد کہا کہ وہ ایک بڑی انڈین آئل ریفائنری کو ہدف بنائے گی جو ’اب بھی روسی تیل کو عالمی منڈیوں تک پہنچانے میں مدد دے رہی ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا