پاکستان میں بجلی کی ریڈنگ کی شفافیت ابھی تک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ مختلف طریقوں کے بعد اب صارفین کی سہولت کے لیے ’پاور سمارٹ ایپ‘ متعارف کروائی گئی ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بجلی کی قیمتوں اور زائد بلوں سے تنگ صارفین کو ریلیف کیسے ملے گا؟ اور آیا اس ایپ کی مدد سے بجلی کے بل کم آئیں گے؟
پاور ڈویژن نے 29 جون کو ’اپنا میٹر، اپنی ریڈنگ‘ کے سلوگن کے تحت ’پاور سمارٹ ایپ‘ متعارف کروائی ہے، جسے وزیراعظم شہباز شریف نے ایک ’انقلابی قدم‘ قرار دیا ہے۔ اس ایپ کے ذریعے اب صارفین اپنی ریڈنگ خود لے سکتے ہیں۔
وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے ایک بیان میں کہا کہ ’200 یونٹ کے استعمال پر بجلی کا بل 2000، 2200 روپے ہوتا ہے لیکن میٹر ریڈر ایک دن بھی ریڈنگ تاخیر سے کرے تو یونٹ 201 یا اس سے زیادہ ہونے پر آٹھ ہزار تک پہنچ جاتا ہے، لہذا اب ہر صارف اپنی ریڈنگ، ایپ کے ذریعے مقررہ وقت پر کرے گا۔ اس سے بجلی کا کم بل آئے گا اور پروٹیکٹڈ صارفین کو سہولت ملے گی۔‘
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’اب میٹر ریڈر کے ساتھ صارف خود بھی ریڈنگ تقسیم کار کمپنیوں کو بھجوا سکیں گے۔ اس طریقے سے یونٹ وہی تسلیم ہوں گے جو پہلے ریکارڈ ہوں گے۔گذشتہ سال اوور بلنگ کی مد میں 110 ارب روپے عوام کو واپس کیے گئے۔‘
لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو ) کے انجینیئر رمضان بٹ نے اس ایپ کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’موبائل ایپ کے ذریعے صارفین کے خود ریڈنگ لینے سے کمی بیشی کا چانس کم ہو جائے گا۔ اس سے میٹر ریڈروں پر بھی چیک اینڈ بیلنس ہوگا۔‘
بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے باعث پاکستان میں سولر پینلز کے استعمال میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان آبادی کے لحاظ سے بڑے ممالک میں دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے، جہاں کُل بجلی کا 25 فیصد سے زیادہ سولر پینل پیدا کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روئٹرز کی 17 جون کو جاری کردہ رپورٹ کے پاکستان میں شمسی توانائی فروغ پا رہی ہے جو فوسل فیولز کی نسبت آلودگی نہ پیدا کر کے بجلی بناتی ہے۔ فی الوقت یورپی ملک لکسمبرگ اپنی 46 فیصد بجلی سولر پینلز سے بنا رہا ہے۔ اس کے بعد لیتھونیا (43.6 فیصد)، اسٹونیا (41.9 فیصد)، ہنگری (37.5 فیصد) اور ہالینڈ (37 فیصد) بجلی سولر سے بنا رہا ہے۔
دنیا میں صرف 20 ملک سولر پینلز سے 25 فیصد بجلی بنا رہے ہیں، جن میں سب سے بڑا پاکستان ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ جنوری تا اپریل 2025 کے چار مہینوں میں پاکستان میں سب سے زیادہ بجلی سولر پینلوں نے ہی بنائی۔ 2202 میں پاکستان نے 3500 میگاواٹ بجلی بنانے والے سولر پینل چین اور دیگر ممالک سے درآمد کیے تھے، 2024 میں 16600 میگاواٹ بجلی بنانے والے پینل امپورٹ کیے گئے جبکہ رواں سال کے چار ماہ میں 10 ہزار میگاواٹ بجلی بنانے والے پینل درآمد کیے جا چکے ہیں۔
اس صورت حال کے باوجود بھی پاکستان میں بجلی کی قیمت ابھی تک خاطر خواہ کم نہیں ہو سکی۔
ریکارڈ کے مطابق 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے بجلی کی قیمت 34 روپے فی یونٹ جبکہ اس سے زیادہ یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کے لیے بجلی کی قیمت 48 روپے فی یونٹ تک ہے۔
اسی طرح تجارتی اور انڈسٹریل یعنی کمرشل صارفین کے لیے 64 سے 80 روپے فی یونٹ تک اوسط وصول کی جاتی ہے، تاہم بجلی کے زیادہ استعمال پر یونٹ کی قیمت زیادہ ہونے کا فارمولا لاگو ہو رہا ہے۔