پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع خضدار میں ایک ایسا گاؤں واقع ہے جو جدید دور کی سہولیات سے بالکل محروم ہے۔ اس گاؤں میں نہ کوئی پرائمری سکول ہے، نہ صحت کا کوئی مرکز، نہ ہسپتال، نہ پولیس چوکی، اور نہ ہی بجلی ہے۔ یہاں کے بچے اور بچیاں سکول جانے کے بجائے پہاڑوں میں لکڑیاں کاٹتے اور بکریاں چراتے نظر آتے ہیں اور لوگ جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔
خضدار، بلوچستان کا دوسرا بڑا ضلع ہے جو رقبے کے لحاظ سے پورے پاکستان میں بھی دوسرا بڑا ضلع شمار ہوتا ہے۔ وسیع اور پہاڑی علاقے کی وجہ سے یہاں کئی دیہات ایسے ہیں جہاں کچی سڑکیں تک موجود نہیں۔ انہی میں سے ایک گاؤں ’اندراچ‘ ہے، جو شہر سے تقریباً 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس گاؤں تک پہنچنے کے لیے صرف موٹرسائیکل یا پیدل ہی سفر ممکن ہے، اور یہ سفر سنگلاخ پہاڑوں سے ہوتا ہوا تقریباً چار گھنٹے میں طے کیا جاتا ہے۔ بارش کے دنوں میں یہ علاقہ کئی ہفتوں تک شہر سے کٹ جاتا ہے، جس کی وجہ سے اشیائے خورونوش کی شدید قلت پیدا ہو جاتی ہے۔
گاؤں کے بلدیاتی نمائندے عبدالرزاق نے ’انڈپینڈنٹ اردو‘ کو بتایا: ’پاکستان بننے سے آج تک ہمیں ایک پرائمری سکول تک میسر نہیں آیا۔ ہمارے بچے اور نوجوان مایوس ہیں، کوئی ایک بھی ’الف‘ سے ’ب‘ تک نہیں جانتا۔ ہمیں صحت کی کوئی سہولت حاصل نہیں، اور مریضوں کو کندھوں، گدھوں یا اونٹوں پر لاد کر ہسپتال لے جانا پڑتا ہے۔ ہمیں یقین نہیں ہوتا کہ مریض زندہ ہسپتال پہنچے گا یا راستے میں دم توڑ دے گا۔‘
محکمہ شماریات کے مطابق اس گاؤں کی کل آبادی 5,164 ہے۔ مقامی افراد کا ذریعہ معاش مال مویشی اور زراعت ہے۔ علاقے میں ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے پانی کا سنگین بحران ہے۔ لوگ جھیلوں سے پانی پیتے ہیں، جہاں سے جانوریں بھی پانی پیتے ہیں۔ صاف پانی نہ ہونے کے باعث لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں، اور علاقے میں ایک بھی صحت مرکز موجود نہیں۔
علاقہ مکین عبدالمجید کے مطابق: ’ہماری چار نسلیں بغیر کسی سہولت کے زندگی گزارے ہیں۔ یہاں پینے کے پانی کا بحران اتنا شدید ہے کہ انسان اور جانور ایک ہی جگہ سے پانی پیتے ہیں۔ راستے نہ ہونے کے باعث ہم مہینے میں صرف دو بار صرف ضروری سامان لینے کے لیے شہر جا پاتے ہیں۔‘
’اندراچ میں کوئی مدرسہ ہے اور نہ کوئی شخص اردو سمجھ سکتا ہے۔ 76 سالوں میں سینکڑوں بچوں کے لیے ایک سکول بھی نہیں بنایا جا سکا۔ یہ گاؤں جس صوبائی حلقے میں آتا ہے، وہاں کے نمائندے کئی بار وزارتی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، مگر عوام کے مطابق حکام کو بارہا مسائل سے آگاہ کرنے کے باوجود کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گاؤں کے رہائشی عبداللہ نے گفتگو میں کہا: ’ان پہاڑوں کے درمیان ہمیں کوئی سہولت میسر نہیں۔ ہمارے بچے مال مویشی چراتے ہیں، ہماری تین چار نسلیں یہاں گزر چکی ہیں لیکن آج تک حکومت نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمارے بنیادی مسائل پر توجہ دی جائے۔‘
مقامی نوجوان محمد صدیق نے بتایا کہ: ’تقریباً 500 گھرانوں پر مشتمل یہ علاقہ آج بھی پتھروں کے دور میں جی رہا ہے۔ نہ تعلیم، نہ سڑک، نہ پانی۔ حکومت کم از کم سکول اور ہسپتال تو فراہم کرے۔‘
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر خضدار، عابد حسین بلوچ نے تسلیم کرتے ہوئے بتایا کہ: ’واقعی میں ایسے علاقے ہیں جہاں تک ہماری رسائی نہیں ہے۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں، ایک وجہ آبادی کی کمی، دوسری وجہ بعد میں لوگ یہاں آ کر آباد ہوئے ہیں۔ بہرحال، ایسے علاقوں میں تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔‘
بلوچستان کی وزیرِ تعلیم راحیلہ درانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں اس گاؤں کی صورتحال کا علم نہیں، تاہم رپورٹ طلب کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ اس سے قبل انہوں نے بتایا تھا کہ بلوچستان میں 29 لاکھ بچے سکول سے باہر ہیں، جنہیں سکولوں میں لانے کے لیے ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
بلوچستان میں مجموعی طور پر 52 لاکھ بچوں میں سے صرف 22 لاکھ سکول جاتے ہیں۔ بچوں کی اتنی بڑی تعداد کے سکول نہ جانے کی وجوہات میں غربت، تعلیمی اداروں کی عدم دستیابی، اور اساتذہ کی کمی شامل ہیں۔