پاکستان فوج نے بدھ کو کہا کہ خضدار میں سکول بس کو ’انڈیا کی معاونت‘ سے شدت پسندوں نے نشانہ بنایا ہے جس میں چار بچوں سمیت چھ اموات ہوئی ہیں۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا کہ ابتدائی معلومات کے مطابق حملے میں بچوں سمیت کم از کم 43 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ’میدان جنگ میں بری طرح ناکام ہونے کے بعد انڈیا کی پراکسیز ان گھناؤنی اور بزدلانہ کارروائیوں کے ذریعے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی اور بدامنی پھیلا رہی ہیں۔‘
وزیراعظم محمد شہبازشریف اور آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر حالیہ سانحہ خضدار کے تناظر میں امن وامان کی صورت حال کاجائزہ لینے کے لیے بدھ کی شام کوئٹہ پہنچ گئے ہیں۔ وفاقی وزرا خواجہ محمد آصف، محسن نقوی اور عطاء اﷲ تارڑ بھی وزیراعظم کے ہمراہ ہیں۔
وزیراعظم کو خضدار میں سکول کی طالبات اور اساتذہ کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کے حملے پر بریفنگ دی جائے گی، جب کہ بلوچستان میں امن وامان کی صورت حال پرغور کرنے کے لیے سلامتی کا اعلیٰ سطح کا اجلاس بھی متوقع ہے۔
آئی ایس پی آر نے خضدار حملے کے بارے میں اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’آپریشن بنیان مرصوص میں ناکام ہونے اور فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے شکار کیے جانے کے بعد، ان انڈین دہشت گرد پراکسیوں کو انڈیا کی طرف سے پاکستان میں معصوم بچوں اور شہریوں جیسے نرم اہداف کے خلاف ریاستی آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔‘
پاکستان فوج نے کہا کہ انڈیا کے سپانسرڈ حملے کے مجرموں اور ان کے معاونین کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور انڈیا کا ’مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے گا۔‘
بیان میں کہا گیا کہ ’انڈین سیاسی حکومت کی طرف سے ریاستی پالیسی کے طور پر دہشت گردی کا استعمال نفرت انگیز اور ان کی پست اخلاقی اور بنیادی انسانی اصولوں کو نظر انداز کرنے کا عکاس ہے۔‘
پاکستان کی مسلح افواج بہادر پاکستانی قوم کی حمایت کے ساتھ، ملک بھر سے انڈین سپانسرڈ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے متحد ہیں۔
انڈیا نے پاکستانی الزامات کو مسترد کر دیا
انڈیا نے خصدار حملے میں ملوث ہونے کے پاکستانی الزامات کو مسترد کیا ہے۔
انڈین دفتر خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ایکس پر ایک بیان میں کہا ہے کہ ’انڈیا خضدار حملے میں ملوث ہونے کے پاکستانی بے بنیاد الزامات کو مسترد کرتا ہے۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’انڈیا ایسے تمام واقعات میں جانی نقصان پر تعزیت کرتا ہے۔‘
تاہم بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’بطور دہشت گردی کے عالمی مرکز کے اپنی شہرت سے توجہ ہٹانے اور اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے بعد پاکستان کی اب یہ دوسری عادت بن چکی ہے کہ وہ اپنے تمام اندرونی مسائل کا الزام انڈیا پر ڈال دیتا ہے۔‘
اس سے قبل خضدار کے ڈپٹی کمشنر یاسر دستی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’آرمی پبلک سکول کی بس میں مختلف مقامات سے بچوں کو سوار کر کے سکول لے جایا جا رہا تھا کہ شہر کے قریب خودکش بمبار نے اسے نشانہ بنایا۔‘
انہوں نے کہا کہ جائے وقوعہ کو گھیرے میں لے کر شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر یاسر دشتی کے مطابق خضدار کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی، تاہم شدیدزخمیوں کو کوئٹہ یا کراچی منتقل کیا جا سکتا ہے۔
ایک عینی شاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا کہ دھماکے سے بس مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ ’دھماکہ اتنا زور دار تھا کہ بس سڑک کے کنارے سے دور جا کر الٹ گئی اور آگ لگ گئی، سکیورٹی اہلکاروں اور امدادی کارکنوں نے بروقت پہنچ کر بچوں کو باہر نکالا۔‘
خضدار بس حملہ پر امریکی ناظم الامور نیٹلی بیکر کا بیان
امریکی ناظم الامور نیٹلی بیکر نے بدھ کو ایک بیان میں خضدار حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’معصوم بچوں کا قتل ناقابل فہم ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیٹلی بیکر نے کہا کہ ’کسی بھی بچے کو سکول جاتے ہوئے خوف کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ ہم پاکستان میں ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو اس تشدد کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں۔‘
وزیر اعظم، فیلڈ مارشل کا خضدار کا ہنگامی دورہ
خضدار حملے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر آج کوئٹہ کا ہنگامی دورہ کریں گے۔
وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا کہ ’وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کو خضدار میں بھارتی سرپرستی میں سرگرم دہشت گردوں کی جانب سے سکول کی بچیوں اور اساتذہ پر حملے کے حوالے سے بریفنگ دی جائے گی۔‘
بیان میں کہا گیا کہ ’فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے اعزاز میں آج شام ایوان صدر میں منعقد ہونے والی تقریب کو خضدار میں اندوہناک حملے کی وجہ سے انہی کی درخواست پر مؤخر کر دیا گیا۔‘
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے خضدار زیرو پوائنٹ کے قریب بس دھماکے میں بچوں کی اموات کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’معصوم بچوں کو نشانہ بنانے والے درندے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔‘
وزیر داخلہ نے مزید کہا: ’دشمن نے بربریت کا مظاہرہ کرکے معصوم بچوں پر حملہ کیا۔ سکول بس پر حملہ دشمن کی ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی گھناؤنی سازش ہے۔‘
دھماکے کے بعد علاقے کو سکیورٹی فورسز نے گھیرے میں لے لیا جبکہ زخمیوں کو فوری طور پر قریبی ہسپتالوں میں پہنچایا گیا۔
تاحال اس حملے کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔
آرمی پبلک سکول کے طلبہ کو اس سے قبل بھی نشانہ بنایا جا چکا ہے، جب 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں اے پی ایس سکول پر حملے میں 144 سے زائد افراد کو قتل کر دیا گیا تھا، جن میں سے بیشتر معصوم طلبہ تھے۔