انفرادی طور پر اور گروہوں میں سیاح ہوائی جہاز، موٹر بائیکس، کیمپر وین اور یہاں تک کہ سائیکلوں پر اب افغانستان کا رخ کرنے لگے ہیں، یہ ملک حالیہ برسوں تک جنگ کا شکار رہا مگر اب طالبان حکومت ان سیاحوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہے۔
افغانستان کی سیاحت کے نائب وزیر قدرت اللہ جمال نے جون کے اوائل میں ایسوسی ایٹڈ پریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا: ’افغان عوام گرم جوش اور مہمان نواز ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے ممالک کے سیاح آئیں، ان سے رابطہ قائم ہو۔
’سیاحت کسی بھی ملک کے لیے بہت فائدہ مند ہوتی ہے۔ ہم نے ان فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی قوم کے لیے ان سے مکمل فائدہ اٹھانے کا ہدف رکھا ہے۔‘
ایک ممکنہ منافع بخش صنعت
سیاحت دنیا کے کئی ممالک کے لیے ایک نہایت اہم اور اربوں ڈالر کی صنعت ہے۔
افغانستان غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے کوشاں ہے، اور طالبان حکومت کو سیاحت کی اس ممکنہ معاشی اہمیت کا بھرپور احساس ہے۔
جمال نے کہا: ’ہم اس وقت بھی اس شعبے سے خاصا منافع کما رہے ہیں، اور ہمیں امید ہے کہ یہ مستقبل میں اور بھی بڑھے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ سیاحوں کے اخراجات کا فائدہ معاشرے کے زیادہ طبقوں تک پہنچتا ہے، جو دیگر صنعتوں کے مقابلے میں ایک بڑا مثبت پہلو ہے۔
’ہم پرامید ہیں کہ یہ شعبہ ایک بڑی معیشت میں بدل جائے گا اور نمایاں فوائد لائے گا۔ یہ ہماری قومی معیشت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔‘
زیادہ نہیں، بس تھوڑے تھوڑے لوگ
سیاحتی ویزے جلد اور آسانی سے حاصل کیے جا سکتے ہیں، اور دبئی، استنبول جیسے بڑے شہروں سے افغانستان کے لیے ہفتے میں کئی پروازیں دستیاب ہیں۔
حکومت نے ہوٹلنگ اور سیاحتی شعبے میں ملازمت کے خواہش مند افراد کے لیے ایک تربیتی ادارہ بھی قائم کیا ہے — مگر یہ صرف مردوں کے لیے ہے۔
ابھی تک سیاحوں کی آمد سست ہے، مگر ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
جمال کے مطابق، ’پچھلے سال تقریباً نو ہزار غیر ملکی سیاح افغانستان آئے، جبکہ اس سال کی پہلی سہ ماہی میں تقریباً تین ہزار افراد نے ملک کا دورہ کیا۔
اگرچہ طالبان کی حکومت ہے، مگر حملے اب بھی ہوتے ہیں۔ داعش کی شاخ افغانستان میں فعال ہے، اور مئی 2024 میں بامیان میں ایک حملے میں چھ افراد مارے گئے جن میں تین ہسپانوی سیاح بھی شامل تھے۔
بامیان وہ مقام ہے جہاں کبھی صدیوں پرانے بدھ مجسمے موجود تھے جنہیں طالبان نے 2001 میں تباہ کر دیا تھا۔
مغربی ممالک اب بھی افغانستان کا سفر نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، مگر طالبان حکومت کے مطابق گذشتہ دو دہائیوں کی امریکی جنگ کے مقابلے میں ملک میں تشدد میں واضح کمی آئی ہے۔
جمال نے کہا: ’افغانستان نے کئی سالوں تک جنگ اور مشکلات دیکھی ہیں۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کے لوگ آئیں، افغان روایات، ثقافت، زندگی، تخلیق اور برداشت کو خود دیکھیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ’جامع سیکیورٹی‘ موجود ہے۔
اخلاقی مخمصہ
تنقید نگار سوال اٹھاتے ہیں کہ ایسے وقت میں جب افغانستان میں خواتین کے ساتھ شدید امتیازی سلوک ہو رہا ہے، کیا غیر ملکیوں کا یہاں تفریح کے لیے آنا اخلاقی طور پر درست ہے؟
افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین کے لیے پرائمری سے آگے تعلیم پر پابندی ہے، اور بہت سے پیشے ان کے لیے بند ہیں۔ خواتین کو پارکس، باغات یا جِمز میں جانے کی اجازت نہیں۔
بیوٹی پارلرز پر پابندی ہے۔ حکام خواتین کے لباس کے بارے میں بھی سختی سے احکامات دیتے ہیں اور ان سے چہرہ ڈھانپنے کا مطالبہ کرتے ہیں، جو اکثر کابل میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
کچھ سیاحوں نے کہا کہ انہوں نے اس بارے میں غور ضرور کیا، مگر آخرکار خود دیکھنے کے لیے افغانستان جانے کا فیصلہ کیا۔
فرانسیسی-پیروویئن سیاح الاری گومیز نے بتایا کہ وہ اور ان کے برطانوی ساتھی جیمز لڈیارڈ تقریباً ایک سال تک سوچتے رہے کہ افغانستان سے گزرنا چاہیے یا نہیں، کیونکہ وہ برطانیہ سے جاپان کی جانب کیمپر وین پر سفر کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا: ’کچھ چیزیں اخلاقی طور پر درست نہیں لگتی تھیں۔‘
مگر افغانستان پہنچنے پر انہوں نے ایک مہمان نواز، پرامن اور خوبصورت ملک پایا۔ ان کا ماننا ہے کہ ان کی موجودگی طالبان کی حمایت کے مترادف نہیں۔
لڈیارڈ نے کہا: ’آپ جب سفر کرتے ہیں تو پیسہ حکومت کو نہیں بلکہ عام لوگوں کے ہاتھ میں جاتا ہے۔‘
تعلقات بہتر بنانا
خواتین سے متعلق سوالات حکومت کے لیے خاصے حساس ہیں۔ جمال نے اس موضوع پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا اور صرف اتنا کہا کہ دونوں مرد و خواتین سیاحوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا: ’جو لوگ ہمارے قوانین اور روایات کا احترام کرتے ہیں، وہ آئے بھی ہیں اور آئندہ بھی آ سکتے ہیں۔‘
اگرچہ افغان خواتین پر سخت پابندیاں عائد ہیں، مگر غیر ملکی خواتین پر ان کا اطلاق نسبتاً نرم ہوتا ہے۔ اگرچہ انہیں عوامی مقامات پر سکارف پہننا ہوتا ہے، مگر اکثر ان سے چہرہ ڈھانپنے کا مطالبہ نہیں کیا جاتا اور انہیں کچھ ممنوعہ جگہوں جیسے پارکس میں داخلے کی اجازت بھی مل جاتی ہے۔
جمال نے کہا: ’ملک کو غیر ملکیوں کے لیے کھولنا تعلقات بہتر بنانے کا ذریعہ بھی ہے۔
’یہ مختلف ممالک کے عوام کے درمیان رابطے کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ نہ صرف تجارت کے لیے فائدہ مند ہے بلکہ بین الاقوامی تعلقات کے فروغ کے لیے بھی اہم ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’جب غیر ملکی یہاں آتے ہیں تو افغان بھی ان سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ تجارت کے فروغ کے ساتھ ساتھ سیاحت باہمی فہم، ثقافتی تبادلے اور صلاحیتوں کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔
’ایک غیر ملکی کا یہاں آ کر سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنا قربت پیدا کرتا ہے، تعلق بناتا ہے اور اعتماد کو فروغ دیتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی ثقافت کا احترام کرنے لگتے ہیں اور فاصلے کم ہو جاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’تو یہ صرف معاشی ترقی نہیں، بلکہ روحانی اور سیاسی فوائد بھی لاتی ہے۔‘