میڈیا کی ڈولی بھی لٹک رہی ہے

ہمارے میڈیا کو کون بتائے گا آپ کسی میلے ٹھیلے کی خبر پڑھ رہے ہیں تو شوخی اور چیخ پکار شاید گوارا کر لی جائے لیکن سوگوار لمحے سنجیدگی مانگتے ہیں۔

22 اگست 2023 کو الائی میں ریسکیو آپریشن (اے ایف پی)

بٹگرام میں لٹکتی ڈولی سے تو بچوں کو بحفاظت نکال لیا گیا ہے لیکن کیا میڈیا کے سینیئر اور جونیئر تجزیہ کاروں کو کچھ خبر ہے کہ میڈیا کی اپنی ڈولی بھی لٹک رہی ہے؟

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

ہے کوئی صاحب خان جیسا رضاکار جو اس ڈولی کو سیدھا کرے؟

بٹگرام میں بچے صبح سے ڈولی میں پھنسے ہوئے تھے۔ شام اترنے لگی تو سورج کے ساتھ دل بھی ڈوبتا محسوس ہوا۔ پریشانی کے عالم میں ٹی وی آن کیا تو وجود میں سیسہ اتر گیا۔

 نیوز کاسٹر چیخ چیخ کر بتا رہی تھیں کہ ’ناظرین، دیکھیے یہ ہم ہیں اور ہم نے سب سے پہلے قوم کو خبر دی تھی کہ یہاں بچے پھنس چکے ہیں۔‘

ایک ہی سانس میں، چیختے چلاتے کوئی نصف درجن بار ’سب سے پہلے‘ کا یہ پہاڑا ختم ہوا تو نیا سلسلہ شروع ہو گیا: ’ناظرین، یہ ایکسکلوزیو مناظر صرف ہم آپ تک پہنچا رہے ہیں!‘ ( اور مناظر وہ تھے جو چار گھنٹے پہلے سوشل میڈیا پر دیکھے جا چکے تھے اور وہ ان میڈیا والوں نے نہیں بلکہ مقامی لوگوں نے اپنے موبائل فون سے بنائے تھے)۔

اس کے بعد سینیئر تجزیہ کاروں کی مدد سے قوم کی رہنمائی کا فریضہ شروع ہو گیا۔ (یاد رہے کہ پاکستان میں فی الحال جونئیر تجزیہ کاروں کی پیدائش پر پابندی ہے)۔

سوال ہوا، ’بتائیے گا وہاں کی تازہ ترین صورت حال کیا ہے؟‘

اور اس سوال کا جواب وہ صاحب دے رہے تھے جو مبلغ ایک گھنٹہ پہلے اسلام آباد میں ٹریل فائیو پر واک کر رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے بٹگرام کی تازہ ترین صورت حال کے نام پر وہ سارا رواں تبصرہ فرما دیا جو سوشل میڈیا پر دستیاب تھا۔

خبر پڑھنے اور سوال کرنے کا انداز بیاں اور لہجہ ایسا تھا جیسے شوق اور سرمستی میں آدمی یوں جوش میں آ جائے کہ سرشاری میں خود پر قابو نہ پا سکے۔ یہ گویا ایک دہری اذیت تھی، وحشت کے عام میں ٹی وی بند کرنا پڑا۔

ہمارے میڈیا کو کون بتائے گا کہ سوگواری کے عالم میں خبر پہنچانے کا اسلوب جدا ہوتا ہے۔ آپ کسی میلے ٹھیلے کی خبر پڑھ رہے ہیں تو شوخی اور چیخ پکار شاید گوارا کر لی جائے لیکن سوگوار لمحے متانت مانگتے ہیں، سنجیدگی، ٹھہراؤ اور وقار۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جہاں سنجیدگی اور گداز اختیار کرنا چاہیے یہ وہاں بھی اٹکھیلیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ جہاں پرسہ دینا ہو وہاں یہ ’می رقصم‘ ہو جاتے ہیں۔ کوئی تو ہو جو انہیں سمجھائے کہ ہر وقت اور ہر مقام ڈگڈگی بجانے کے لیے سازگار نہیں ہوتا۔ میڈیا کو سوچنا ہو گا کہ کیا سوگواری کے لمحات کے صحافتی آداب نہیں ہوتے؟ ایک پہر کے لیے ہی سہی؟

’آزادیِ صحافت‘ کے کچھ مناظر، جو میرے مشاہدے میں ہیں، درد کی صورت وجود میں گڑے ہیں۔

کوئٹہ میں بلاسٹ ہوا، ہمارے وکیل دوست ٹکڑوں کی صورت بکھر گئے، چینل پر خبر چل رہی تھی اور ہم لہو رو رہے تھے، مگر اگلے ہی لمحے شوخی بھری کمرشل بریک چل پڑی: ہم سا حسین ہونا چاہتے ہو؟

لودھراں میں ایک معصوم بچے کا ریپ کے بعد قتل ہوا۔ لاشہ گھر میں رکھا تھا اور لائیو کوریج ہو رہی تھی۔ نیوزکاسٹر نے رپورٹر سے کہا، ’کیا آپ ہماری مقتول کی والدہ سے بات کروا سکتے ہیں؟‘

رپورٹر نے مائیک غم کی ماری ماں کے سامنے کر دیا۔ بیٹے کے لاشے کے پاس بیٹھی ماں سے نیوز اینکر نے سوال پوچھا، ’آپ اس وقت کیا محسوس کر رہی ہیں؟‘

سیلاب کا ایک منظر ہے۔ اگست کے دن ہیں۔ ایک بوڑھا سیلاب کے پانی میں سے چلتا ہوا آ رہا ہے۔ اس کے سر پر ایک بڑی سی ٹوکری ہے۔ ٹوکری میں دو سہمے ہوئے معصوم سے بچے اور ایک مرغی ہے۔ مائک اس کے منہ میں گھسیڑ پر ایک اینکر نے سوال پوچھا، ’کیا آپ ہمیں قومی ترانہ سنا سکتے ہیں؟‘

دکھوں کا مارا وہ بوڑھا بے بسی اور حیرت سے اینکر کو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔

سکندر نامی ایک شخص نے بلیو ایریا میں اپنے ہی اہل خانہ کو یرغمال بنایا تو چینلوں پر اس کی لائیو کوریج شروع ہو گئی۔ اس کوریج کے دوران ایک وقت آیا سکندر صاحب رفع حاجت کے لیے جھاڑیوں میں جا گھسے۔ نیوز کاسٹر نے شدت جذبات سے اعلان فرمایا: ’ناظرین یہ لائیو مناظر صرف آپ ہماری سکرین پر دیکھ سکتے ہیں۔‘

 سکندر صاحب رفع حاجت کر کے واپس آ گئے مگر نیوز کاسٹر نے کتنی ہی دیر قوم کی رہنمائی جاری رکھی کہ ’ناظرین، یہ ہے وہ خصوصی منظر جو آپ صرف اور صرف ہماری سکرین پر دیکھ رہے ہیں۔‘

یہ اپنے مشاہدے میں سے چند صحافتی نگینے ہیں جو میں نے آپ کے سامنے رکھے۔ آپ اپنے مشاہدات کو بھی اس میں شامل کر لیں تو یہ حسیات میں پیوست کانٹوں کی پوری ایک مالا بن سکتی ہے۔

میڈیا کی ڈولی لٹک رہی ہے۔ اسے ریسکیو کرنے کون آئے گا؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ