وزیرستان: دو نوجوانوں کا اردو ڈرامہ جو موبائل پر شوٹ اور کپڑے کی دکان پر ایڈٹ ہوا

وزیرستان کے دو نوجوانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک اردو ڈرامہ تخلیق، لکھا، شوٹ اور ایڈیٹ کیا ہے، جو انٹرنیٹ پر ریلیز ہونے کے بعد غیر معمولی حد تک مقبول ہوا۔

وزیرستان کے دو نوجوانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک اردو ڈرامہ تخلیق، لکھا، شوٹ اور ایڈیٹ کیا ہے، جو انٹرنیٹ پر ریلیز ہونے کے بعد غیر معمولی حد تک مقبول ہوا۔ 

اس ڈرامے کی کل مدت 120 منٹ تھی، جسے آٹھ سے 10 اقساط میں جاری کیا گیا۔

یہ پورا ڈرامہ موبائل فون پر شوٹ اور ایڈیٹ ہوا۔ ڈرامے کے ویڈیو گرافر بن یامین اور مصنف و ہیرو محمد الیاس نے اسلام آباد میں انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ یہ وزیرستان کی نئی نسل کا وہ رخ ہے جو صرف انٹرنیٹ استعمال نہیں کرنا چاہتی بلکہ اس پر اپنی تخلیقات کے ذریعے حصہ ڈالنا چاہتی ہے۔

ڈرامہ اردو میں ہی کیوں؟

بن یامین اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ان کے علاقے میں پشتو زیادہ بولی جاتی ہے، لیکن انہوں نے اردو کا انتخاب اس لیے کیا تاکہ دوسرے صوبوں کے لوگ بھی ان کی کہانی دیکھ سکیں۔ 

ڈرامے کی کہانی

ڈرامے کے مصنف اور مرکزی کردار محمد الیاس کے مطابق اس ڈرامے کا مقصد یہ دکھانا تھا کہ وزیرستان کے نوجوان بھی ٹیلنٹ رکھتے ہیں اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی صلاحیتیں منوا سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ ڈرامے میں کپڑوں کی وجہ سے ترک ڈرامہ ارتغرل کی جھلک نظر آتی ہے لیکن کہانی بالکل مختلف تھی۔

اخراجات اور مشکلات

ڈرامے پر تقریباً چار سے پانچ لاکھ روپے خرچ ہوئے، جس میں کپڑوں، موبائل فون اور مائیک وغیرہ کا خرچ شامل ہے۔ 

ایڈیٹنگ کے بارے میں بن یامین نے بتایا کہ فی قسط تقریباً 300 سے 400 کلپس ہوتے تھے اور ایک قسط کو ایڈیٹ کرنے میں ایک ہفتہ لگ جاتا تھا۔ 

انٹرنیٹ کی عدم دستیابی: 

یہ ایک بڑا چیلنج تھی۔ بن یامین اور الیاس نے بتایا کہ وزیرستان میں انٹرنیٹ عام نہیں تھا، ہمیں قریبی علاقے میں کپڑوں کی ایک دکان پر جا کر وائی فائی استعمال کرنا پڑتا تھا تاکہ اپ لوڈ اور ایڈیٹنگ کی جا سکے۔

ڈرامے میں خواتین کیوں نہیں تھیں؟

ڈرامے میں خواتین کو شامل نہ کرنے کی وجہ تخلیق کاروں نے یہ بتائی کہ پہلے ہی ان کے ڈرامے پر علاقے کے بعض مشران نے تنقید کی تھی اور اگر وہ اپنے ڈرامے میں خواتین کو بھی شامل کرتے تو ان کے ڈرامے پر مکمل پابندی لگ جاتی۔

محمد الیاس اور بن یامین نے اپنے مستقبل کے منصوبوں کے حوالے سے بتایا کہ وہ ایک نئی کہانی پر کام کر رہے ہیں۔ دونوں کا پیغام ہے کہ ’ہمارے علاقے میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے لیکن سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر نوجوانوں کو اچھی ٹیکنالوجی اور ساز و سامان ملے تو وہ ملک اور دنیا کو وزیرستان کا روشن پہلو دکھا سکتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ابھرتے ستارے