جرمنی کی وزارتِ تعلیم و تحقیق نے فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی کے شعبہ جنگلات اور رینج مینیجمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد ہارون رشید کو ’ڈیجیٹل گرین ٹیلنٹ ایوارڈ‘ سے نوازا ہے۔
یہ بین الاقوامی اعزاز ہر سال دنیا کے 20 نمایاں سائنس دانوں کو دیا جاتا ہے جو پائیدار ترقی میں ان کی غیر معمولی خدمات کا اعتراف ہے۔
فاریسٹ ایکولوجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے ڈاکٹر ہارون کو یہ اعزاز پائیدار جنگلات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے خاتمے میں نمایاں خدمات پر دیا گیا ہے۔
حال ہی میں انہیں وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بھی ماحولیات کے شعبے میں ان کی تحقیقی کاوشوں کے اعتراف میں یوتھ ایکسیلنس ایوارڈ سے نوازا گیا۔
انہوں نے جرمنی، امریکہ اور چین میں ہونے والی ریسرچ میں حصہ لینے کے علاوہ پاکستان کے پہلے بانس پر مبنی کاربن سکوئسٹریشن سائنسی منصوبے کا آغاز اور گرین یوتھ موومنٹ کے تحت نوجوانوں کو ماحولیاتی کاوشوں کے لیے متحرک کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
ڈاکٹر ہارون رشید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ڈیجیٹل گرین ٹیلنٹ ایوارڈ کے لیے جرمنی کی فیڈرل منسٹری آف ریسرچ اینڈ ایجوکیشن نے دنیا بھر سے نامزدگیاں مانگی تھیں اور پھر ان میں سے 20 نوجوان سائنس دانوں کو ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا، جن میں وہ واحد پاکستانی تھے۔
انہوں نے بتایا: ’میں بنیادی طور پر فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھتا ہوں اور فاریسٹ ایکولوجی پر کام کر رہا ہوں۔ آج کل کاربن کے بارے میں کافی بات کی جا رہی ہے تو اس حوالے سے میں بمبو (بانس) جو کہ گراس فیملی سے تعلق رکھتا ہے، کی کاربن جذب کرنے کی صلاحیت پر کام کر رہا ہوں۔‘
انہوں نے بتایا کہ جنگلات کے تحفظ کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں ریموٹ سینسنگ اور جی آئی ایس ٹیکنیکس پر بہت زیادہ کام ہو رہا ہے۔
’یہ ایسے ڈیجیٹل ٹولز ہیں جن کی بنیاد پر ہم اپنے جنگلات کو لائیو دیکھ سکتے ہیں، ان کا معائنہ کر سکتے ہیں اور اس کی بنیاد پر اگلے سالوں کے اپنے منصوبوں کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر ہارون کے مطابق جرمنی میں قیام کے دوران انہوں نے اس حوالے سے نئے ڈیجیٹل ٹولز سیکھے ہیں، جن کے استعمال سے فینو ٹائپ پلانٹس کو دریافت اور سٹڈی کیا جا سکتا ہے۔
قبل ازیں وہ امریکہ کے محکمہ زراعت کی مالی معاونت سے مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی میں ’ٹری آؤٹ سائیڈ فاریسٹ‘ کے تحقیقی منصوبے کا بھی حصہ رہ چکے ہیں، جس کا مقصد روایتی جنگلات کے علاوہ دیگر علاقوں میں بھی گرین کور بڑھانا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’جنگلات تو اپنا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن کھیتوں میں جو درخت لگائے جاتے ہیں، ان کا کاربن جذب کرنے کے حوالے سے کیا پوٹینشل ہے، اس کی بنیاد پر ہمارا یہ کام تھا اور میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر ڈیوڈ سپوک کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے پاکستان میں اب تک تحقیق نہیں کی گئی ہے حالانکہ دنیا بھر میں اس حوالے سے بہت کام ہو رہا ہے۔
بقول ڈاکٹر ہارون: ’میں نے امریکہ اور جرمنی میں اس حوالے سے جو ٹیکنیکس سیکھی ہیں، اس بنیاد پر کچھ پروپوزلز تیار کیے ہیں تاکہ یہاں بھی کسانوں کو ایگرو فاریسٹری اور ٹری آوٹ سائیڈ فاریسٹ کی طرف راغب کیا جا سکے۔‘
بانس کے پودوں کی کاربن جذب کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے جاری تحقیق کے متعلق انہوں نے بتایا کہ ’بانس سب سے جلدی اگنے والا پودا ہے، جسے سب سے کم پانی چاہیے۔ اس کو کسی قسم کی کھاد یا زمین کی تیاری کی بھی ضرورت نہیں ہے، یہ کسی بھی قسم کے حالات میں نشوونما پا سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اب بھی بہت سے پڑھے لکھے کسان بانس کی کاشت میں لگے ہوئے ہیں اور اچھا منافع کما رہے ہیں لیکن عام کسان اس کے فوائد سے آگاہ نہیں ہیں۔
’اس ریسرچ گیپ کو پُر کرنے کے لیے ہم نے کچھ ریسرچ ٹرائلز لگائے ہوئے ہیں، میرا پی ایچ ڈی کا طالب علم ہے جو اس پر کام کر رہا ہے اور امید ہے کہ چار سے پانچ ماہ میں اس کے نتائج ہمیں مل جائیں گے۔ اس کے بعد ہم ریسرچ پبلیکیشن کی طرف جائیں گے اور پاکستان میں قومی سطح پر اپنے نتائج کو سامنے لے کر آئیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے موجودہ چیلنج کو دیکھتے ہوئے بانس کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔
’اس میں کم سے کم اِن پٹ کے ساتھ آپ زیادہ سے زیادہ آؤٹ پٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ سب سے زیادہ کاربن اور ہیوی میٹلز جذب کرتا ہے۔ بانس کا ہمارے ماحول میں ایک اہم حصہ ہے اور اس وجہ سے ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے اقدامات سے متعلق شہریوں کو راغب کرنے کے لیے کاربن کریڈٹ کا جو منصوبہ شروع کیا ہے، وہ بہت اچھا اقدام ہے۔
’ہم خود بھی اپنی تحقیق کے نتائج کی بنیاد پر کسانوں کو اس طرف لے کر آئیں گے اور مستقبل میں انہیں بانس لگا کر کاربن کریڈٹ حاصل کرنے کے لیے راغب کریں گے۔‘