کیا موسمیاتی تبدیلی کے لیے ہمارا ماسٹر پلان صرف اللہ توکل ہے؟

2025 آ گیا ہے۔ اخباری سرخیاں وہی ہیں، متاثرین کی تصاویر وہی ہیں، سیلابی پانی سے اجڑی بستیاں وہی ہیں اور مرنے والوں کی تعداد بھی وہیں پہنچ رہی ہے جہاں پہلے تھی۔

2025 کا سیلاب بھی آ گیا۔ آج اگر حکمران کہتے ہیں کہ یہ قدرت کی بھیجی آفت ہے، اللہ کا امتحان ہے، بارش ہم نے تو نہیں برسائی، معمول سے زیادہ بارش ہوئی ہے، بادل پھٹ گئے ہیں، موسمیاتی تبدیلی عالمی مسئلہ ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ تو یہ راگنی اب پرانی ہو چکی ہے۔

حکمرانوں سے پوچھنے کا وقت آ گیا ہے کہ جب زیادہ بارشوں کی شکل میں قدرت لگاتار آفات بھیج رہی ہے، موسم کی پیش گوئی کا سائنسی نظام بھی اپنی درستگی میں عروج پر ہے، پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی کی نگرانی کے لیے ابھی اسی برس جنوری میں ہائی ٹیک ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بھی خلا میں بھیجا ہوا ہے اور تباہی سے نمٹنے کے لیے عالمی امداد بھی کچھ نہ کچھ ملی ہے تو پھر آپ کی تیاری کیا بس ساون بھادوں کے سیلے موسم میں پکوڑے تلنے تک محدود رہی؟

خیبر پختونخوا سے کراچی تک پاکستان پانی پانی ہے۔ ریکارڈ ساز بارشوں نے زندگی مفلوج کر دی ہے۔ سیلابی ریلے لگ بھگ آٹھ سو افراد کو بہا لے گئے، پورے کے پورے خاندان صفحہ ہستی سے مٹ گئے، ہزاروں دکانیں اور کاروبار کیچڑ میں دفن ہو گئے اور سینکڑوں گھر دریابرد ہو گئے۔

موسمیاتی تبدیلی آج کا شکوہ ہے، لیکن ساٹھ، ستر، اسی اور نوے کی دہائیوں میں جب پاکستان میں سیلاب آئے تھے، تب بھی پاکستانیوں کی حالت یہی تھی۔ یقین نہ آئے تو اپنے والدین سے پوچھ لیں۔

1992 کے سیلاب کے وقت میں اتنے ہوش میں تھی کہ ٹی وی سکرین پر رات نو بجے کے خبرنامے کا وہ منظر آج بھی ذہن میں ہے، جب پانی میں ڈوبے پاکستانی ہیلی کاپٹر کو دیکھ کر ہاتھ جوڑ رہے تھے اور بچانے کی فریاد کر رہے تھے۔ اُس سیلاب کے بعد اصلاح احوال کے لیے کوئی نمایاں ایمرجنسی اقدامات ریکارڈ پر نہیں ملتے۔

2007 کا سیلاب آیا تو پھر یہی کہا گیا کہ ایسی بارشیں اور ایسی تباہی پہلی بار ہوئی ہے۔ ہم نے ایک بار پھر اسے آسمانی مصیبت سمجھ کر خاموشی اختیار کی اور متاثرین کے لیے چندہ جمع کرنے میں لگ گئے۔ کسی نے حکومتوں کی غفلت پر سوال نہ اٹھایا۔

2010 کے سیلاب میں اموات لگ بھگ دو ہزار تک جا پہنچیں۔ محسوس ہوا جیسے طوفانِ نوح آیا ہو۔ اُس وقت تک نجی ٹی وی چینلز پھل پھول چکے تھے، اس لیے متاثرین کی کوریج بھی زیادہ ہوئی، لیکن اس سیلاب کا کریڈٹ بھی قدرت پر ڈال کر ہم ہاتھ جھاڑ کر بیٹھ گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پہلے تو صرف سکرین پر دیکھتے تھے لیکن 2013 میں کراچی کی سیلابی صورت حال میں خود کو مبتلا بھی پایا۔ ہم صحافی اپنی نیوز وین میں رات تین بجے تک پھنسے بیٹھے رہے، پانی گھٹنوں تک آ گیا تھا، وین کبھی ڈولتی کبھی رک جاتی۔ اگلے دن خبر ملی کہ ایک خاندان گاڑی سمیت نالے میں بہہ گیا، مگر کراچی جیسے تعلیم یافتہ شہر میں بھی کسی نے حکمرانوں سے جواب طلبی نہ کی۔

2022 کا سیلاب تو کل کی ہی بات لگتا ہے۔ پورے پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیرِ آب آ گیا۔ مرنے والوں کی تعداد پھر ہزاروں تک جا پہنچی۔ وہی پرانا بہانہ: ایسا سیلاب تو کبھی سوچا نہ تھا، اتنی سکت ہی نہیں تھی جتنا پانی برسا اور جس تیزی سے گلیشیئر پگھلے۔

2022 کے بعد حکومت نے دنیا بھر کو بتایا کہ ہم موسمیاتی تبدیلی کا نشانہ ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر کچھ آوازیں ہماری ناقص گورننس پر بھی اٹھے۔ سوال یہ بھی ہوا کہ پاکستان کی تیاری کہاں ہے؟

اب 2025 آ گیا ہے۔ اخباری سرخیاں وہی ہیں، متاثرین کی تصاویر وہی ہیں، سیلابی پانی سے اجڑی بستیاں وہی ہیں اور مرنے والوں کی تعداد بھی وہیں پہنچ رہی ہے جہاں پہلے تھی۔ چاہے انیسویں صدی کے گزٹ دیکھ لیں، بیسویں صدی کے اخبارات اٹھا لیں یا اکیسویں صدی کا ڈیجیٹل میڈیا—ہمارے خطے کی تاریخ سیلابوں سے بھری ہے۔ آج اس فہرست میں موسمیاتی تبدیلی کا اضافہ ہو گیا ہے۔

اب کی بار ہمارا ردِعمل صرف متاثرین کی امداد تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ وقت آ گیا ہے کہ حکمرانوں اور افسران سے پوچھا جائے کہ

  • سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کہاں ہے؟
  • ڈیزاسٹر منیجمنٹ کیوں غائب ہے؟
  • سیٹلائٹ کی تصاویر سے کون سا البم بنا رہے ہیں؟
  • بروقت وارننگ سسٹم فعال کیوں نہیں ہوا؟
  • محکمہ موسمیات کے الرٹس عام عوام تک کیوں نہیں پہنچتے؟
  • جنگلات کی کٹائی کرنے والوں کو پکڑنے کے لیے کیا کیا گیا؟
  • پانی کا راستہ روکنے والی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟

یا بس یہی بتا دیں کہ کیا آپ کا ماسٹر پلان صرف اللہ توکل ہے؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر