’پاکستانی سائنس دان کرونا ویکسین بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘

وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے مطابق ہماری پہلی کامیابی یہ ہے کہ نسٹ سکول آف اپلائیڈ بائیو سائنسزنے کرونا وائرس کی ٹیسٹنگ کِٹ تیار کرلی جبکہ این آئی ایچ سمیت دیگر ریسرچ انسٹی ٹیوٹس میں ویکسین کی تیاری کے حوالے سے بھی کام ہو رہا ہے۔

وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری  کا کہنا ہے کہ  بڑے پیمانے پر کِٹس کی پروڈکشن کے لیے حکومت ڈاکٹروں کی بھرپور حوصلہ افزائی کرے گی۔ (تصویر: فواد چوہدری ٹوئٹر)

‏وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستانی سائنس دانوں نے کرونا وائرس کے ٹیسٹ کے لیے کِٹس تیار کرلی ہیں اور وہ اس مہلک وائرس سے بچاؤ کی ویکسین بنانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

امریکہ اور کینیڈا کے سرکاری دورے پر موجود وفاقی وزیر فواد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بذریعہ ٹیلی فون گفتگو میں فواد چوہدری نے کہا کہ کرونا وائرس کا مسئلہ ایک بین الاقوامی چیلنج ہے اور پاکستان میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) اور نسٹ سمیت دیگر ریسرچ انسٹی ٹیوٹس میں ویکسین کی تیاری کے حوالے سے کام ہو رہا ہے۔

وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے بتایا: ’ہماری پہلی کامیابی یہ ہے کہ نسٹ کے عطا الرحمٰن سکول آف اپلائیڈ بائیو سائنسز نے کرونا وائرس کی ٹیسٹنگ کِٹ تیار کرلی۔ بیرون ملک سے ہمیں وہ ٹیسٹنگ کِٹ آٹھ سے دس ہزار روپے میں مل رہی تھی لیکن اب وہی ٹیسٹنگ کِٹ 15 سو سے دو ہزار روپے میں میسر ہے جو کہ یقینی طور پر کامیابی ہے اور نسٹ کے سائنس دانوں کی ٹیم اس پر داد کی مستحق ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ بڑے پیمانے پر کِٹس کی پروڈکشن کے لیے حکومت بھرپور حوصلہ افزائی کرے گی۔

فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ ’اگلا مرحلہ یہ ہے کہ ویکسین بھی تیار کی جائے، جس میں پاکستانی سائنس دان دنیا بھر کے سائنس دانوں کے شانہ بشانہ ہیں اور پاکستانی سائنس دانوں کی صلاحیت پر کسی کو شک نہیں ہے۔‘

دوسری جانب نسٹ کے سکول آف اپلائیڈ بائیو سائنسز کے سربراہ ڈاکٹر حسنین جنجوعہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کرونا ٹیسٹنگ کِٹس کی تیاری کے لیے فوج کے زیر انتظام ادارے برائے تشخیص امراض   (Armed Forces Institute of Pathology) نے وسائل مہیا کیے اور معاونت فراہم کی۔

ڈاکٹر حسنین نے بتایا کہ اس سلسلے میں وائرل بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر علی ذوہیب نے کلیدی کردار ادا کیا، جنہوں نے جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والی بیماریوں پر ریسرچ کر رکھی ہے۔

کرونا ٹیسٹنگ کِٹس تیار کرنے والے ڈاکٹرز کیا کہتے ہیں؟

کرونا وائرس کے ٹیسٹ کے لیے کِٹ تیار کرنے والے ڈاکٹروں کے گروپ میں شامل نسٹ کے سکول آف اپلائیڈ بائیو سائنسز کے ڈاکٹر علی ذوہیب نے چین کی ووہان یونیورسٹی آف وائرولوجی سے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ جب چین میں وبا پھوٹی تو ووہان شہر ہی اس بیماری کا گڑھ تھا، جس پر انہوں نے ووہان یونیورسٹی آف وائرولوجی میں موجود اپنے پروفیسر سے رابطہ کیا۔

ڈاکٹر علی ذوہیب کے مطابق ان کے پروفیسر نے ہی سب سے پہلے اس وائرس کی شناخت کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ وائرس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، اس لیے انہوں نے جنوری میں ان سے مشاورت کی کہ اس نئے وائرس کی تشخیص کے لیے ٹیسٹ کِٹس کیسے تیار کی جا سکتی ہیں۔

ڈاکٹر ذوہیب کے مطابق: ’14 فروری تک ہم نے پاکستان میں ٹیسٹنگ کِٹس تیار کرلی تھیں لیکن چونکہ پاکستان میں اس وقت کرونا کا کوئی مریض نہیں تھا، اس لیے پاکستان میں اس کا تجربہ نہیں کیا جاسکتا تھا، لیکن جیسے ہی ملک میں کرونا کا پہلا مریض سامنے آیا تو ہم نے حقیقی نمونے پر اس کا تجربہ کیا جو کامیاب رہا۔

یہ ٹیسٹنگ کِٹس کہاں میسر ہیں؟

ڈاکٹر علی ذوہیب نے بتایا کہ ابھی یہ کِٹس کمرشلی میسر نہیں ہوں گی، لیکن چونکہ ابھی وبا بڑے پیمانے پر پھیل رہی ہے، اس لیے قومی مقصد یہی ہے کہ سرکاری ادارہ صحت میں یہ میسر ہو تاکہ وہاں سے متعلقہ ہسپتالوں کو پہنچ سکے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وہ ابتدائی طور پر دس ہزار کے قریب کِٹس تیار کر رہے ہیں جبکہ مزید بھی تیاری کے مراحل میں ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ کرونا کی ٹیسٹنگ کِٹ بنانے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ’اس میں زیادہ وقت نہیں لگتا اور چونکہ انہیں فارمولے کا علم ہے کہ کون سے کیمیکل استعمال ہوتے ہیں تو وہ آدھے گھنٹے میں ایک ٹیسٹ کِٹ بنا سکتے ہیں۔‘

کیا پاکستان میں کرونا وائرس کی ویکسین بھی تیار ہوسکتی ہے؟

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر علی ذوہیب نے بتایا کہ ویکسین بھی بنائی جاسکتی ہے لیکن اس سے پہلے مختلف تجربات کرنے پڑتے ہیں۔ کیمیکل اور دیگر آلات کے لیے فنڈز میسر ہوں تو سب کچھ بن سکتا ہے لیکن وسائل ہونا ضروری ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق